مقالہ جات

تاریخ کی عبرتیں: شہید مطہری اور گروہ فرقان

تحریر: ڈاکڑ حسن عباسی

امام علی ع نے فرمایا کہ تاریخ میں عبرتیں تو بہت ہیں مگر عبرت لینے والے بہت ہی کم ہیں۔

 گروہ فرقان انقلاب کی کامیابی سے ایک سال پہلے وجود میں آیا۔ اس گروہ کا سربراہ اکبر گودرزی تھا۔ انہوں نے انقلاب کی چند اہم ترین شخصیات کوشہید کیا اور کئی کے لئے منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔ اس نے چند سال مدرسہ میں گزارے پھر یہ تہران آیا اور کئی مساجد میں تفسیر قرآن کے درس دینے لگا ۔دوسری کتابوں کے علاوہ اس نے1356شمسی میں توحید کے موضوع پہ ایک موٹی کتاب بھی لکھی تھی۔ کتاب کے شائع ہونے کے ساتھ ہی اس کا ایک شدید مخالف بھی پیدا ہوگیا جوان کے عقائد اورنقطہ نظر سے اختلاف کرتا تھا اوراپنے دلائل کی بنیاد پہ انہیں رد کرتا تھا اور وہ شہید مرتضی مطہری تھے۔جن کا دینی اورعقلی استدلال اس شے کا باعث بنا کہ گودرزی کے فکری انحراف سب پہ واضح ہوگئے اورنوجوان اس گروہ سے تیزی سے نکلنا شروع ہوگئے۔مطہری طالب علموں کی سب سے پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ یہ گروہ فرقان کی شہید مطہری سے دشمنی کی ابتداء تھی۔

انقلاب کامیاب ہوگیا۔امام فرانس سے واپس آئے اور اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے لئے عوامی ریفرنڈم ہونے لگا۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے اسلامی جمہوریہ کے بارے بہت سے شکوک وشبہات پیداکرنے شروع کردیئے۔ان کا جواب دینے کے لئے ہر نگاہ مطہری پہ جاکے ٹھہرتی تھی۔کوئی ہوجوریڈیو،ٹی وی پہ جائے اور ان سوالات کے جواب دے۔مطہری شہید نے جمہوری اسلامی کے متعلق گنگ اور بہت مبہم سوالات کے جوابات دئیے۔ ریفرنڈم ہوا،عوام نے اکثریت سے جمہوری اسلامی کے حق میں ووٹ دیئے،جواس سے اتفاق نہ کرتےتھے وہ یا تو عوام سے مل گئے یا پھر دوسرا راستہ اس سے اختلاف کا اپنا لیا اورگروہ فرقان نے یہی اختلاف اورتشدد کا راستہ اپنایا۔11 اردی بہشت 1358کوجب مطہری، یداللہ سھابی کے گھر سے باہر آرہے تھے کسی نے انہیں پیچھے سے آواز دی اور فائرنگ کرکے شہید کرڈالا۔ ان کی شہادت ان کے جاننے والوں کے لئے بہت سخت تھی۔امام نے فرمایا کہ میں اپنے اس بیٹے سے محروم ہواہوں جومیرے تن کا ٹکڑا تھا لیکن مجھے فخر ہے کہ اسلام کے پاس ایسے فداکارفرزند ہیں۔ علامہ طباطبائی اورامام کے پیغامات کے بعد بہت سے افراد کوپتہ چلا کہ مطہری کون تھا۔ وہ گلیوں،کوچوں اورسٹرکوں پہ نکل آئے اورمظاہرے کرنے لگے مگر اب بہت دیر ہوگئی تھی۔

پہلے کہتے تھے کہ ہمارے پاس علماء نہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ ان سے مربوط ہوں مگر وہ ہم سے دور ہیں۔ علماء ولایت فقیہ کا نام لیتے ڈرتےہیں ہمارے ساتھ چل نہیں سکتے جب ایک ولایت فقیہ پڑھانے،سمجھانے اور دفاع کرنے والا آگیا،اسے دیکھتے رہے،اور کہنے لگےکہ ہم کیسے اس پہ یقین کرلیں یہ بھی مولوی ہے اور کیا پتہ کہ اسی جیساہو۔ مجھے اس لمحہ بنی اسرائیل کی حضرت موسی ع سے کی گئی بے وفائیاں یاد آرہی ہیں۔ اسلام شناس کے بغیر کیسے ممکن ہے کہ کوئی صحیح طرح سے اسلام سمجھے اور راہ سے دورنہ ہو؟ سپیشلسٹ کے بغیرکیسے کوئی عطائی مرض اورمریض کی درست تشخیص کرسکتا ہے؟ ماہر ڈاکٹر کوعطائی اپنے علاقے میں پسند نہیں کرتے کیونکہ اس کے آنے سے انکی دکانداری خراب ہوتی ہے۔کیسے کوئی فرد،معاشرہ،تنظیم،ادارہ علم دین کے ماہر کے بغیر دین سیکھ سکتا ہے؟ وہ افراد جو اپنے کاروبار،نوکریوں میں مصروف رہتے ہوں اور تنظیم،مذہب کو پارٹ ٹائم کے طورپر لیتے ہوں تو کیسے ہمیں ایسے اداروں میں زندگی کے آثار نظر آئیں۔ تبدیلی تو وہ افراد لاتے ہیں کہ جن کا ہم وغم ہروقت ان کا ہدف ہو۔ شروع میں ہم آئی ایس والے یہی مثال دیا کرتے تھے عام عوام کو تقلیدپہ آمادہ کرنے کے لئے اب ایسا کچھ نہیں پتہ نہیں کیوں؟ خیر یہ بھی میرے لئے ان سوالوں میں سے ایک ہے کہ جن کے جواب ابھی تک نہیں ملے۔ لاکھوں بے سمت افرادکا ہجوم جمود کا شکار ہی رہتا ہے ان کے مقابلے میں ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسا ایک فرد پوری قوم کی قسمت تبدیل کرسکتا ہے۔ آئی ایس او کی اصل ذمہ داری تو یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر محمد علی جیسے افراد تربیت کرکے قوم کو دے  ، یا تو میری کورچشمی کہ سب ہوتے ہوئے بھی کچھ نظر نہیں آتا یا پھر اس جیسا کوئی پھر سے آیا ہی نہیں۔کھبی کھبی تو خدا کی عدالت پہ شکرادا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ پھر سے  ہم کم مایہ وکم ظرفوں کوڈاکٹر جیسانہیں دیا جو کسی شے کی اہمیت ہی نہ جانتے ہوں، انہیں وہ شے کیوں عطا کی جائے۔جو نعمتوں کے ملنے پہ شکر نعمت کی بجائے کفرنعمت کریں توپھر وہ نعمت ہاتھوں سے چلی جائے تو عین عدالت ہے اور پھر ایسی قوم وگروہ بنی اسرائیل کر طرح سالوں صحرا میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔کاش ایسا بھی کوئی دن آئے جب ڈاکٹر جیسے افراد کی شہادت کی وجوہات بھی منظرعام پہ آئیں۔ عوام کو ولایت سے عشق ہے۔ عطائیوں نے دہائیوں سے جو ولایت بیان کی ہے عوام اس پہ عمل کررہے ہیں ۔ ویسے یہ بھی ان عطائیوں کا کمال ہی ہے کہ ماہروں کے آنے کے بعد بھی آج بھی اپنی دکانیں چلا رہے ہیں۔ عوام کے ماہرین سے رجوع نہ کرنے کویا تو عوامی شعوری غربت کہا جائے یا پھر یہ کہ ماہرین اپنے فن میں ماہر نہیں اور صرف ایک مخصوص طبقہ کی تشخیص و علاج کررہے ہیں جو ان کی بھاری فیس برداشت کرسکتا ہے۔ عوام یہ سوال کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ قوم کے کرتا دھرتا افرادنے جلسے جلوسوں کے علاوہ کیا کام کئے ہیں؟ ہمیں علمی، معاشی،ثقافتی اورسیاسی میدان میں کوئی بھی قابل اطمینان آثار نظرنہیں آتے۔ اگر صرف دینی حلقوں کی علمی بات ہی کی جائے تو کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں ملتی جو دنیائے تشیع میں پاکستان کی پہچان ہو۔

ہمارے بارے بہت سے افرادکی رائے یہ ہے کہ ہم مردہ پسند قوم ہیں افراد کے جانے کے بعد ان کا احترام کرتے ہیں اور انہیں ہیرومانتے ہیں ان کی زندگیوں میں انہیں بہت اذیت دیتے اوران کے ساتھ نہیں چلتے۔شہید حسینی کوبھی گالیاں دیتے اورشیعہ تصورنہیں کرتے تھے۔ آئی ایس او والے ان کے بال وپر تھے آج دشمن نے ان بال وپروں کو پتہ نہیں کہاں کہاں سے باندھ رکھا ہے کہ ان میں اب حق کی طرف پرواز کرنے کی وہ جرات اورحرکت نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر نقوی پہ آفس آنے پہ اعتراض کرتے تھے،کچھ   کا نام لینے پہ پابندی لگادی گئی،مظفر کودیوانہ، خودسر اورعلماء مخالف کہتے تھے اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھائیو افراد کوان کی کوٹھی،بنگلہ،مکان اور گاڑیوں سے نہیں بلکہ ان کے افکار سے پہچانو۔

بات ہورہی تھی گودرزی کی۔بھاگا بھاگا گیا،مدرسہ کی دیوارکوہاتھ لگایا اورواپس آکے درس قرآن شروع کردیا اورمارکس ازم کوقرآن سے ثابت کرنےلگا۔ اپنے اردگردنظردوڑائیں توآج کتنے گودرزی ہمارے معاشرے پہ چھائے ہیں۔ ایسے افراد کی ذاتی تفاسیر نے قوم کویہاں تک لاپہنچایا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ان گودرزیوں کی ذاتی تفاسیر سے بچیں اور اپنی شخصیات کو پہچانیں اوراستفادہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو لوگ ہمیں پھر یہ طعنہ دیں کہ یہ مردہ پسند قوم ہیں افراد کے جانے کے بعد ہی ان کا احترام کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button