مقالہ جات

پنجاب میں دہشتگردوں کیخلاف جارحانہ آپریشن کی ضرورت!

لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کی مذمت ہر کوئی کر رہا ہے۔ ہر آنکھ اشک بار ہے۔ سوالات مگر اپنی جگہ موجود ہیں کہ آخر ایسا ہر بار کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا صرف مذمتی بیانات سے ہم دہشت گردوں کو شکست دے پائیں گے؟ کیا صرف یہ کہہ کر کہ حکومتی خاموشی کو بے بسی نہ سمجھا جائے، ہم دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو شکست دے سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ عملی اقدامات کی ضروروت ہے، جن سے بہر حال سیاسی مصلحتوں کے باعث گریز کیا جا رہا ہے۔ ہر لہو رنگ واقعے کے بعد سیاسی قیادت البتہ کہتی ہے کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہونے دیں گے مگر کیسے؟ یہ طے ہے کہ خودکش حملہ آور کو روکنا ناممکنات میں سے ہے، مگر یہ بھی طے ہے کہ اگر خودکش حملہ آور کو گیٹ پر ہی قابو کر لیا جائے تو نقصان کم ہوتا ہے۔ جیسے شہید اعتزاز حسن نے کیا تھا۔ دہشت گردی کا واقعہ کراچی میں ہو یا پشاور میں، اسلام آباد میں ہو یا راولپنڈی۔ لاہور ہو یا کوئٹہ، گلگت بلتستان ہو یا چلاس، یہ قابلِ مذمت ہے، لیکن سو باتوں کی ایک بات کہ کیا صرف مذمت کافی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔
دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد حکومتی ادارے پکڑ دھکڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کس بنیاد پر؟ کچھ خفیہ اطلاعات اور کچھ شک کی بنا پر، اسی بنا پر یہ پکڑ دھکڑ دھماکے ہونے سے پہلے بھی تو کی جاسکتی ہے۔ جونہی دہشت گردی کا کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے، پولیس اور انتظامیہ کے دیگر اداروں کو مشتبہ افراد فوراً نظر آجاتے ہیں۔ شنید ہے کہ حساس اداروں کی جانب سے کوئی تھریٹ لیٹر جاری کیا گیا تھا کہ حملہ ہوسکتا ہے۔ پولیس نے بر وقت اقدامات کیوں نہ کئے؟ سب سے اہم کہ حملہ آور بیس کلو گرام سے زائد بارود اپنے جسم پر باندھ کر لاہور کے سب سے مصروف اور معروف پارک کے اندر کیسے چلا آیا؟ بے شک وہ اپنے سہولت کاروں کی مدد سے یہاں تک پہنچا ہوگا۔

دھماکہ ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد یہ خبر چلائی گئی کہ خودکش حملہ آور مظفر گڑھ کا محمد یوسف نامی شخص تھا اور یہ کہ پولیس نے اس کے والد، چچا اور بھائیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی چلتی رہیں کہ اس کے والد اور بھائیوں نے بیان دیا کہ وہ اپنے بیٹے اور بھائی کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ وہ دو سال سے اپنے گھر سے غائب تھا اور یہ کہ دو ماہ سے اس کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا، جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ وہ آن لائن دینی تعلیم دیتا تھا اور ایک مدرسے میں پڑھاتا تھا۔ اگلے دن اس خبر کی پنجاب حکومت کے ترجمان اور دیگر ذمہ داران نے تردید کی۔

اس سے بڑی غیر ذمہ داری اور اپنے عوام کے ساتھ مذاق کی مثال نہیں ملے گی۔ اگر محمد یوسف خودکش حملہ آور نہیں تھا تو عجلت میں اس کا نام میڈیا کو دینے اور اس کے خاندان کے افراد کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ابھی یہ مخمصہ حل نہیں ہوا تھا کہ محمد یوسف کے زخمی ساتھی کا انٹرویو ٹی وی پر آگیا، وہ اپنے اور مبینہ دہشت گرد یوسف کے بارے میں صفائیاں دے رہا تھا۔ آج کے اخبارات میں ایک نئے خودکش دہشت گرد کا نام اور خاکہ دے دیا گیا۔ اس سے اداروں کی ناقص کارکردگی کا بھرم کھلتا ہے۔ ہم ابھی دہشت گرد اور اس کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے کے لئے مختلف خاکے تیار ہی کر رہے تھے کہ ہمیشہ کے ستم گر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے شاعرانہ سے نام والے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے، جو اب ایک اور دہشت گرد تنظیم احرار الہند کا ترجمان ہے، نے اپنی تنظیم کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

کچھ تجزیہ کار اگرچہ لاہور کے واقعے کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کے گرفتار ایجنٹ کی گرفتاری کا ردعمل قرار دے رہے ہیں، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حملہ آور کا ہدف بچے تھے، چنانچہ کالعدم ٹی ٹی پی یا اس کی ذیلی تنظیمیں ایسی کارروائی نہیں کرسکتیں۔ بے شک "را” کے افسر کی گرفتاری کا ردعمل آئیگا۔ مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ احرار الہند والے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی بیعت کرچکے ہیں۔ داعش کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ کتنی سفاک دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس نے اپنے مذموم دہشت گردانہ مقاصد کے لئے عورتوں اور بچوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا۔ چنانچہ ہمیں تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے۔

ہمیں البتہ حیرت اس بات پر ہے کہ سارا پاکستان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کی نرسریوں کے خلاف کارروائی کی جائے، رانا ثناء اللہ مگر کہتے ہیں کہ پنجاب میں ایسی کوئی بات نہیں کہ یہاں رینجر کارروائی کرے۔ حتیٰ کہ چیف منسٹر بھی رینجرز کے پنجاب میں آپریشن کے خلاف تھے، القصہ ساری مسلم لیگ نون، پرسوں رات سے مگر پاک فوج کے جوان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع کرچکے ہیں، کل رات تک پنجاب حکومت کے ترجمان اور دیگر ذمہ داران رینجرز کے اس آپریشن سے یا تو اظہارِ لاتعلقی کر رہے تھے یا پھر یہ بات نہیں مان رہے تھے کہ آپریشن ہو رہا ہے۔ البتہ جب صحافی شواہد کے ساتھ سوالات کرتے تو آگے سے کہا جاتا کہ پنجاب میں علیحدہ سے کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، البتہ پہلے سے جاری آپریشنز میں تیزی لائی گئی ہے۔

آئیں بائیں شائیں مگر حکومتوں کو زیبا نہیں، ہر واقعے کے بعد ہم نئی کہانیوں کو تراشنے بیٹھ جاتے ہیں۔ سادہ بات مگر یہ ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور بے شک یہ جنگ ہماری ہے۔ ہماری فوج، پولیس، عام شہری اور سکیورٹی اداروں کے ہزاروں افراد طالبانی فکر کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دہشت گرد اگر خود پہاڑوں میں ہیں تو ان کے سہولت کار پاکستان کے ہر بڑے شہر میں موجود۔ جنوبی پنجاب کے حوالے سے بالخصوص کئی سولات اٹھائے جاتے ہیں۔ پنجاب میں لاہور والے واقعے کے بعد دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کا آغاز تو کر دیا گیا، مگر اس آپریشن کی نوعیت اگر آپریشن ضربِ عضب جیسی ہو تو ہم دہشت گردی کی لعنت سے مکمل چھٹکارے کا سوچ سکتے ہیں۔ ابھی دہشت گرد سافٹ ٹارگٹس کو ہی نشانہ بنائیں گے کہ سکیورٹی فورسز اور دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ان کی صلاحیت پاک فوج نے ختم کر دی ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر کلی عمل نہ کیا گیا تو دہشت گرد پھر سے سر اٹھا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button