مقالہ جات

مذہبی جماعتوں کا اجلاس کسی ہنگامے کا پیش خیمہ ؟

تجزیہ: مظہر عباس (جنگ نیوز)

چاہے آج کے پاکستان میں 1977 جیسی کوئی تحریک ممکن ہو یا نہ ہو تاہم یقینی طور پر پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) جیسا ایک اتحاد بننے کا امکان ہے اور مرکزی دھارے کی دو جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اصولی طور پر رضامند بھی ہوچکی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بقول اگر حکومت نے اپنا "لبرل ایجنڈا” جاری رکھا تو پی این اے کی طرح کی تحریک چلائی جائے گی۔ اب کیا اس طرح کی مہم کے نتائج بھی وہی برآمد ہوں گے جو 38 سال پہلے ہوئے تھے؟۔ یعنی ایک اور مارشل لاء۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت سیاسی تنہائی کا سامنا کررہی ہے، کیونکہ ایک طرف تو پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ جیسی لبرل جماعتیں سندھ میں بعض حکومتی پالیسیوں سے خوش نہیں، دوسری جانب مسلم لیگ کی حکومت کے بعض حالیہ فیصلوں نے بھی مذہبی جماعتوں کو سڑکوں پر نکلنے کے لئے جواز فراہم کیا ہے۔ اب نواز شریف کو سابق صدر ریٹا ئر ڈ جنرل پرویز مشرف کی قسمت کا ایک اہم فیصلہ کرنا ہے اور اگر انہوں نے مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجا ز ت دی تو خاص طور پر دائیں بازو کی جماعتیں اس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں گی جب کہ پیپلز پارٹی بھی اس کی مخالفت کرے گی

۔ اس جذباتی فضا میں جہاں مذہبی اور لبرل پا ر ٹیا ں دونوں ہی مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کے خلاف ہیں، حکومت کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس صورت حال سے جو واحد پارٹی فائدہ اٹھائے گی، وہ پا کستا ن تحریک انصاف ہے جو پہلے ہی اس سال جون سے حکو مت مخالف مہم چلانے کے لیے تیار ہے۔ لہذا اگر مذہبی جماعتوں کی مہم نے زور پکڑ لیا اور سڑکوں پر مقبول احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوگئی اور تحریک انصاف نے بھی اپنی مہم کو موثر بنالیا، تو پیش آئند نتائج کی پیش گوئی کرنا مشکل نہیں۔ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آگئی ہیں۔ جماعت اسلامی کے صدر دفتر منصورہ لاہور میں منعقد ہونے والا اجلاس پی این اے کے احیا کی جانب پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ اگرچہ 1977 والا الائنس خالصتا مذہبی جماعتوں کا اتحاد نہیں تھا تاہم نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد بننے والی اس وقت کی سب سے سیکولر جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک استقلال نو جماعتوں کے الائنس کا حصہ تھیں۔ 1977 اور 2016 کے حالات میں کوئی مطابقت نہیں۔ جب تک پی این اے تشکیل دی گئی بھٹو اپنے لبرل اور سیکولر ایجنڈے سے ہٹ چکے تھے اور دائیں بازو کے موقف پر عمل پیرا تھے۔ دوم امریکا بھی بھٹو کو ان کے جوہری پروگرام کی وجہ سے ہٹانا چاہتا تھا اور اس نے بھٹو مخالف تحریک کی حمایت کی تھی۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی متنازعہ تھا اور بعض لوگوں کے مطابق اس نے خاموش حمایت فراہم کی تھی۔ پی این اے تحریک کا آغاز بظاہر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے مسئلے پر ہوا تھا اور یہاں تک کہ اس کا بھٹو کے ساتھ ہونے والا سمجھوتہ صرف دوبارہ انتخاب کرانے تک محدود تھا۔ اگر وہ "تحریک نظام مصطفی،” کی تحریک ہوتی تو مارشل لاء کی حمایت نہ کرتی اور بھٹو کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلیتی۔ بھٹو نے دائیں بازو کا دل جیتنے کے لئے جو اصلاحات کیں، وہ ضیاءالحق بھی نہیں کرسکے۔ 1973 ء کا آئین، قادیانیوں کو کافر قرار دینا، جمعہ کی چھٹی، شراب پر پابندی، اسلامی بلاک بنانا اور جوہری پروگرام کا آغاز کرنا جسے مغرب نے اسلامی بم قرار دیا۔ ضیا نے 4 اپریل 1979 کو بھٹو کی پھانسی تک پی این اے کو استعمال کیا۔

بعد ازاں انہوں نے ایک بار پھر اپنے ریفرنڈم کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جماعت اسلامی کو استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ضیاء کی حمایت کی قیمت چکانی پڑی جب پہلی بار اس کے طاقتور امیدوار کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں ہار گئے۔ لہذا، اگر جماعت اسلامی کے نوجوان اور توانا امیر سراج الحق پی این اے جیسی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اتحاد قائم ہوا جو انتخابی الائنس میں بھی تبدیل ہوگیا تو جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کو سیاسی طور پر آئندہ عام انتخابات میں فائدہ ہوگا جب کہ چھوٹی جماعتوں کو بھی ان کا حصہ ملے گا۔ جے یو آئی خیبر پختونخوا میں اور جماعت اسلامی کراچی میں اپنی بحالی چاہتی ہیں جہاں ایم کیو ایم پر غیر یقینی صورتحال چھائی ہے۔ اگر یہ الائنس بن گیا اور اس نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف سے ہاتھ ملا لیا تو یہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک "منی پی این اے” تحریک آئندہ چند ہفتوں میں شروع کی جائے گی اور اپریل تک ہمیں ” کچھ احتجاج” نظر آ سکتا ہے چاہے حکومت پنجاب اسمبلی کے قانون کو مکمل طور پر واپس ہی کیوں نہ لے لے۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی صرف اینٹی لبرل ایجنڈے کےلیے نہیں بلکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے لئے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔

جماعت الدعوة اور جیش محمد جیسی جماعتیں مخمصے میں پڑ گئی ہیں، کیونکہ وہ ان جماعتوں میں شامل ہیں جو جمہوریت اور آئین پر یقین نہیں رکھتیں اور جمہوریت کو "مغربی تصور” قرار دیتی ہیں۔ لیکن، دوسری کالعدم تنظیموں کے ساتھ ساتھ وہ بھی اس تحریک کا ساتھ دیں گی کیونکہ آپریشن "ضرب عضب” اور نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اس طرح حکومت کی بدانتظامی اور لبرل و اعتدال پسند جماعتوں کی خاموشی نے مذہبی جماعتوں کو وزیر اعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کا موقع فراہم کیا۔ حکومت کے دو بڑے اقدامات اس صورت حال کی وجہ بنے۔ (1) ممتاز قادری کی پھانسی، اور، (2) عورتوں کے حقوق پر پنجاب اسمبلی میں قانون سازی۔ حکومت نے دونوں معاملات کو بہت غلط طریقے سے ہینڈل کیا۔ اس کے علاوہ اگر حکومت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تو دائیں بازو کی جماعتیں اس معاملے کو شریف برادران کے خلاف استعمال کریں گی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو شک ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعظم نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے "ڈیل” ہوئی ہے۔ ممتاز قادری کے کیس میں صدر کو موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اختیار تھا یا یہ فیصلہ زیر التوا بھی رکھا جاسکتا تھا۔ میرے ساتھی سلیم صافی نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ قانونی جنگ کے دوران ممتاز قادری کو بچانے میں جے آئی اور جے یو آئی کا کیا کردار رہا۔ حکومت اپنے تجزیے میں ناکام رہی ہے اور خود اپنے لئے مشکل صورت حال پیدا کرلی ہے۔ ” حقوق نسواں بل” جو اب قانون بن گیا ہے، کے معاملے میں حکومت پنجاب سندھ اسمبلی سے کچھ سیکھ سکتی تھی۔ سندھ اسمبلی نے بھی کم و بیش اسی طرح کا بل منظور کیا تھا لیکن مذہبی جماعتوں کی جانب سے کوئی شور شرابہ نہیں ہوا۔ سندھ اسمبلی کاقانون سازی میں ریکارڈ اس طرح کے قوانین کو لاگو کرنے اور گڈ گورننس میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی طرح برا نہیں ہے۔ حکومت نے یقینی طور پر پی این اے جیسے اتحاد کے لئے زمین ہموار کی ہے لیکن 1977 کی طرح کی تحریک کا امکان نہیں۔ 38 سال پہلےکی طرح لبرل اور سیکولر جماعتیں آج بھی الجھن میں ہیں جب انہوں نے دائیں بازو کے مضبوط بیانیے کی تشکیل کے لئے راستہ دے دیا تھا۔ جو شخصیت واقعی اہمیت رکھتی ہے، وہ سراج الحق نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جے یو آئی ہے جو وزیراعظم نواز شریف کے اتحادی ہونے کے باوجود بدلتے ہوئے منظر نامے میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button