مشرق وسطی

پوٹن نے شام سے جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وجہ کیا ہے؟

 شیعیت نیوز: مشرق وسطیٰ کے امور کے معروف جرمن ماہر میشاعیل لُوڈرز نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے ٹیلی وژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ بنیادی طور پر تبدیل کچھ بھی نہیں ہوا۔ شام میں روس کے دو عسکری اڈے ابھی بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک روسی فضائیہ کا اڈہ ہے اور دوسرا روسی بحریہ کا۔ ماسکو کی طرف سے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے فوجی تائید و حمایت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

میشاعیل لُوڈرز کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ ضرور ہوا کہ دمشق حکومت کے فوجی دستے روس کی عسکری حمایت کے ساتھ ملک کے بہت سے علاقے ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے قبضے سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے اور فوجی حوالے سے اسد حکومت آج ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر پوزیشن میں ہے۔

لُوڈرز نے، جو اسلامی امور کے ماہر بھی ہیں، کہا کہ روسی صدر پوٹن نے شام سے ماسکو کے جزوی فوجی انخلاء کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کا وقت ہی سب سے اہم ہے۔ اپنے اس فیصلے کے سلسلے میں ولادیمیر پوٹن نے اس بات کا بھی دھیان رکھا ہے کہ جنیوا میں شام سے متعلق امن مذاکرات کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اور وہ ان مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے فوجی حوالے سے زیادہ عرصے تک شام میں موجود نہیں رہنا چاہتے تھے۔ ’’اسی لیے ان کا یہ فیصلہ شطرنج کی ایک چال کی طرح ہے۔‘‘

تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ روسی صدر پوٹن نے شام سے جزوی فوجی انخلاء کے ساتھ اب جنیوا مذاکرات کی صورت میں امن کے لیے ایک نئی بنیاد کو مضبوط بنا دیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں میشاعیل لُوڈرز نے کہا، ’’امن مذاکرات فی الحال عملاﹰ تو اس فوجی انخلاء کے فیصلے سےمتاثر نہیں ہوتے لیکن پوٹن کا یہ اقدام ایک علامتی پیش رفت ضرور ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی نہیں بھلائی جانی چاہیے کہ شام میں سرگرم چھوٹے بڑے ملیشیا گروپوں اور مسلح گروہوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں ’پراکسی وار‘ تو ابھی تک جاری ہے۔‘‘

میشاعیل لُوڈرز کے بقول مغربی ممالک، امریکا، یورپی یونین، ترکی اور سعودی عرب، ہر کوئی دمشق میں اسد حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن انہی سب طاقتوں کو اب یہ بات بھی کسی طرح برداشت کرنا ہو گی کہ اس وقت بشار الاسد کی سیاسی اور عسکری حالت بظاہر چند ہفتے پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button