پاکستان

عرب شیوخ کی پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیاں

تیل اور گیس کی تجارت ہو یا تلور کا شکار، پاکستانی سیاست اس حوالے سے کافی حد تک عرب شیوخ کی غلام ثابت ہوئی ہے۔ ہمارے حکمرانوں میں سے چھوٹے تو کیا، بڑوں کی بھی اس حوالے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ عرب شیوخ کے مقابلے میں ہمارے سیاستدان اور بیوروکریسی کی حالت ایک دوسرے سے کچھ مختلف نہیں، بلکہ اس حمام میں سب ننگے، کے مصداق ہر ایک کو ملکی مفادات کے مقابلے میں ہمیشہ اپنے ہی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اس ملک اور یہاں کے مستضعف شہریوں کا کتنا ہی استحصال کیوں نہ کیا جائے، حکمرانوں اور دیگر بااثر افراد کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر عرب شیوخ مخصوص مہینوں میں شکار یا تفریح کی غرض سے پاکستان تشریف لاتے ہیں اور مختلف علاقوں کی سیر کے علاوہ زیادہ تر وقت وہ مخصوص مقصد کی برآوری کے لئے اپنی پسند کے علاقوں میں گزار لیتے ہیں۔ ان مخصوص علاقوں میں انکے کچھ پرانے دوست پہلے سے تیار اور آمادہ ہوتے ہیں اور انکی مہمان نوازی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ جائز و ناجائز اور کسی ممنوعہ فعل کا بھی ایک مناسب راہ حل تلاش کرکے انکے لئے ہر طرح کے پروٹوکول کا بندوبست کر لیتے ہیں۔
یہی تلور ہی کا مثال لیجئے۔ تلور مرغی کے برابر نایاب نسل کا ایک ہوشیار اور خوبصورت پرندہ ہے، جس کے شکار پر پاکستان میں سرکاری پابندی عائد ہے۔ لیکن جب عرب شاہی خاندان کے افراد تلور کے شکار کے لئے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ اگرچہ حکومت نے اس سال سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کرکے یہاں سے ایک قانون پاس کرایا تھا، جسکے تحت سپریم کورٹ نے عربوں کے لئے مخصوص تعداد میں تلور جبکہ تیتر کے شکار کو مطلقاً جائز قرار دیا۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل، جبکہ اسکا شکار مطلقاً ناجائز اور غیر قانونی تھا، تب بھی عرب شیوخ کو اس حوالے کوئی دشواری پیش نہیں آئی بلکہ اگر کہیں کوئی مشکل پیش آبھی گئی تو وہ پاکستان کے غریب اور نادار کاشتکاروں کو آئی، انکی فصل اور سبزیاں پاوں اور گاڑیوں کے ٹائروں تلے روند کر تباہ ہوگئیں۔
جنسی تسکین کیلئے غریبوں کا استحصال
پاکستانی قانون گویا فقط پاکستانیوں کے لئے ہے، امریکن اور یورپینز کے بعد عربوں کے لئے یہاں کا قانون کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ صرف جنسی تسکین کے لئے عربوں کے لئے پاکستانی قانون کو تہہ و بالا کرنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں۔ اس حوالے سے معروف صحافی ایم الیاس خان لکھتے ہیں، ‘‘عرب کے شہزادے اور انکے امیر دوستوں کو کھیل کے طور پر تلور کا شکار کرنا بہت پسند ہے، کیونکہ اِسکے گوشت کو جنسی خواہش کو بڑھانے کی دوا سمجھا جاتا ہے۔ سرد موسم میں ہزاروں تلور وسطی امریکہ سے پاکستان کا سفر کرتے ہیں، جسکے باعث پاکستانی اُمراء کو "نرم سفارت کاری” کا موقع مل جاتا ہے۔ شکار پر پابندی کے باوجود حکومت امیر شیخوں کے لئے سالانہ 25  سے 35 تک کی تعداد میں شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے، جس میں اُنھیں سردیوں میں شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اِنکا شکار خفیہ لیکن متنازعہ ہے۔ شکار کرنے والے افراد کو دس روز کے دوران 100 پرندے شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، لیکن وہ اس کوٹے کا کوئی خیال نہیں رکھتے بلکہ اس سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں۔’’

ویزوں اور سیر وسیاحت کے بدلے اپنے کاشتکاروں کا استحصال
پاکستانی حکمرانوں اور شکار فراہم کرنے والے علاقوں کے سرداروں اور وڈیروں کا تو اپنے علاقوں میں مکمل راج ہوتا ہے اور عرب شیوخ سے انکو ذاتی طور پر بہت بڑا مالی فائدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ خفیہ طور پر یا اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاکر شہزادوں کو شکار کا مطلق پروانہ دلاکر انکی خوشنودی حاصل کرلیتے ہیں اور اسکے عوض وہ عرب ممالک کے سیاحتی ویزوں کے علاوہ کاروبار اور دیگر قسم کے ویزوں کا حصول بھی ممکن بنا لیتے ہیں۔ عام ویزوں کو یہ لوگ دو دو تین تین لاکھ میں فروخت کرکے اپنی خدمت کا اجر وصول کر لیتے ہیں، جبکہ عربستان کی سیر وسیاحت انکے لئے ایک اضافی انعام ہوتا ہے۔ 2014ء کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک سعودی شہزادے نے اپنے 21 روزہ دورے کے دوران 2،000 سے زائد پرندوں کا شکار کیا تھا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے تیتر کے بجائے تلور ہی کا شکار کیا تھا۔ متعدد عینی شاہدین سے جمع کئے گئے تاثرات میں ایسی ہی شہادتیں ملتی ہیں کہ پابندی کے بعد بھی ضلع بھکر کے دور دراز صحرائی علاقے نور پور تھل اور گاؤں ماہنی میں تلور کا شکار کیا گیا۔
لاکھوں کی فصل کے بدلے 80 ہزار روپے
نور پور تھل کے ایک نوجوان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پنجاب کے محکمۂ جنگلات اور جنگلی حیات کے حکام نے پچھلے سال دسمبر میں علاقے کا دورہ کیا تھا اور اِن لوگوں کو بتایا کہ وہ قطری شیخ کے دورے کی تیاری کریں۔ انھیں تین مہینے تک کام کے لئے 80،000 روپے ادا کیے گئے، جس میں جن جگہوں پر تلور پائے جاتے ہیں، وہاں کی نشاندہی اور حفاظت شامل تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ شکار کرنے والے افراد 21 دسمبر کو یہاں پہنچے اور ایک ہفتے کے قیام کے دوران انھوں نے آٹھ تلور شکار کئے۔ اِس دوران زمیندار امجد عباس بدھوال نے بتایا کہ جب وہ دسمبر کے وسط میں اپنی چنے کی فصل پر کام کر رہے تھے تو اُنھوں نے ریت کے ٹیلے پر تلور کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ محکمۂ جنگلی حیات کے حکام اور مقامی پولیس ان کی زمین پر آئی، گاڑی سے اترنے کے ساتھ ہی انھوں نے جارحانہ انداز میں ہمیں علاقے سے باہر نکال دیا۔ بدھوانی کا کہنا ہے کہ انکا قافلہ تقریباً 20 گاڑیوں پر مشتمل تھا، جنہوں نے ان کا پیچھا کیا۔ امجد عباس کا کہنا ہے کہ میں نے ایک عرب کو دیکھا جو اپنے روایتی سفید جبّے میں ملبوس تھا، اُنھوں نے گاڑی کی چھت سے گردن باہر نکالی ہوئی تھی اور ان کے بائیں ہاتھ پر عقاب بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے مرغی کے برابر ایک تلور کو دیکھا جو ہوا میں اڑ رہا تھا۔ عرب شکاری نے عقاب کی آنکھوں سے پٹی اتار دی اور تلور پر جھپٹنے کے لئے اس کو ہوا میں چھوڑ دیا۔ گاڑیاں تیزی سے ان کا پیچھا کر رہی تھیں جبکہ دونوں پرندے ان سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قطری شکاریوں کے لئے کام کرنے والے ماہنی علاقے کے ایک رہائشی نے بتایا کہ جنوری کے اوائل کے دوران اس نے سات بار تلور کے شکار کا انتظام کیا تھا۔ ان کے مطابق شکار پر پابندی کی حکم عدولی کرتے ہوئے اِس علاقے میں تقریباً 70 تلور شکار کئے گئے، جبکہ حکومت کی جانب سے تلور کے شکار کو مشرق وسطٰی کے حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں "بنیادی جُز” قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ نے اس سال جنوری میں تلور کے شکار سے پابندی ہٹا لی ہے۔

اپنی زمین اور فصلوں کی رکھوالی سے محرومی
عالمی جنگلی حیات فنڈ کی پاکستان میں ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمٰی کا کہنا ہے کہ تلور کی نسل رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے، جبکہ حکومت قابل برداشت شکار کو یقینی بنانے کے لئے آبادی کا سروے نہیں کرا رہی اور یہ صرف قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ہی نہیں ہیں، جو شکار سے ناخوش ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ شکار کے لئے آنے والے بڑے وفود کی آمد سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چنے کی وہ واحد فصل ہے جو تھل کے صحرا میں بارش والے مٹی کے ٹیلوں پر پروان چڑھتی ہے اور جب یہاں قحط کے حالات ہوں تو زندگی مشکل بن جاتی ہے۔ امجد بدھوال کا کہنا ہے، آپ 25 ایکڑ کی زمین پر چنے کی پیدوار کے لئے تقریباً 400 امریکی ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ اِس میں سینکڑوں افراد کی محنت شامل ہوتی ہے، بیج لگانے سے لے کر کیڑوں سے بچاؤ کی ادویات تک اور عام دیکھ بھال میں سینکڑوں گھنٹے صرف ہوتے ہیں، کیونکہ زمین کافی وسیع ہوتی ہے چنانچہ وہاں باڑ نہیں لگائی جاسکتی۔

تلور کا گھونسلہ فصل کیلئے ٹڈی دل
مقامی کسان سلطان کارلو کا کہنا ہے کہ اگر تلور کا جوڑا آپ کی زمین پر اپنا گھونسلہ بنا رہا ہے تو پولیس اور رہنمائی کرنے والے آپ کو وہاں جانے سے روک دیں گے، جب تک شہزادہ ان کا شکار نہ کرلے۔ اِس میں کئی دن لگ جاتے ہیں اور کبھی کبھار مہینے بھی۔ یعنی کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک آپ کو اپنی فصل کی طرف آنکھ اٹھانے کی اجازت نہیں ملتی۔ اِس کے علاوہ یہاں دوسری مصیبت شکاریوں کی جانب سے سڑک سے ہٹ کر گاڑیاں چلانا ہے، کیونکہ وہ شکار کی تلاش میں اپنی درجنوں گاڑیوں پر باہر نکلتے ہیں اور کئی کلومیٹر تک اپنے شکار کا پیچھا کرتے ہیں، جس سے اطراف میں کاشت کردہ سبزیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مرکزی حیدرآباد تھل شہر کے تھانے میں مقامی کاشت کاروں کی جانب سے درجنوں شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ وہاں کے ایک افسر نے بتایا، غیر ملکی شکاریوں کے خلاف کارروائی کے احکامات نہیں دیئے جاتے، کیونکہ انھوں نے متاثرہ کسانوں کو نقصان کا معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ آج تک کسی کسان کو اپنی متاثرہ فصل کا معاوضہ نہیں ملا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ خلیجِ عرب سے آنے والے امیر شکاری، شکار کرنے والے علاقوں کے لئے بھاری سرمایہ کاری ساتھ لائیں گے۔ تاہم یہاں اِس بارے میں کافی شکایات ہیں کہ قطری شہزادوں نے اِس علاقے میں چار ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کے لئے ابھی تک ایک اینٹ تک نہیں رکھی گئی، جبکہ اِس کے لئے مقامی زمیندار پہلے ہی زمین وقف کرچکے ہیں۔

ریکارڈ کے بدلے زمین کا معاوضہ
جب کسانوں میں اِس حوالے سے بے چینی تھی تو نور پور تھل کے ایک کسان کو شکاریوں سے رقم نکالنے کے ایک جدید منصوبہ دماغ میں آیا۔ 27  دسمبر کو کسان قیوم حسین کو پتہ چلا کہ اس کی زمین پر شکار کیا جانا ہے تو اس نے شکار کی عکس بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک جاننے والے سے ایچ ڈی کیمرہ ادھار لیا اور شکار کے آغاز کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ اس منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہا تھا تو شکاریوں نے اس کو دیکھ لیا اور باہر آنے کا کہا، لیکن اس نے اپنی موٹر سائیکل پر چھلانگ لگائی اور گھر کی جانب فرار ہوگیا۔ حسین نے ٹی وی چینل پر نشر کرنے کے لئے مقامی صحافی اکرام اللہ کو فون کرکے فوٹیج کی پیشکش کی۔ مقامی گائیڈ اور اِس واقعے کے عینی شاہد نے بتایا کہ عرب شکاریوں اور مقامی پولیس اہلکاروں کا حسین کے گھر پر آمنا سامنا ہوا۔
گائیڈ کے مطابق صورت حال خراب ہوگئی۔ دونوں جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ جب پولیس نے اس کو جسمانی طور پر ہراساں کرنا شروع کیا تو لڑائی ہوگئی، لیکن وہ ضد پر اڑا رہا۔ آخر کار ان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور عرب شکاریوں نے اس کے کیمرے کے میموری کارڈ کے عوض 500 امریکی ڈالر ادا کرکے جان چھڑائی۔
 

متعلقہ مضامین

Back to top button