مقالہ جات

’قبول ہے، قبول ہے‘

مغرب عرصے سے طعنے دے رہا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی روکنے کے لیے مسلمان ممالک واویلا مچانے، باہمی الزام تراشی اور مذمت گیری میں تو طاق ہیں لیکن جب عملی اقدام کی بات آتی ہے تو مغربی فوجی طاقت کے استعمال کا انتظار کرتے ہیں۔

غالباً انھی طعنوں سے تنگ آ کر سعودی عرب نے اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت ایک 34 رکنی پین اسلامک دفاعی اتحاد کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ مگر اکثر ممالک قرعہ اندازی میں نام نکلنے کے بعد خوشی سے اچھلنے کے بجائے یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں کس نے دھکا دیا؟

قرعہ اندازی کہاں اور کب ہوئی؟ اور اب ہم سے کیوں توقع کی جا رہی ہے کہ اس دلھن کی طرح سر جھکا کے ’ہاں قبول ہے قبول ہے‘ کہہ دیں جسے دولھا کا نام اور ولدیت تک نہیں معلوم؟

مگر سعودی عرب خاندانِ اسلامیہ کے اس بزرگ کی طرح ہے جس کا خیال ہے کہ بچے خاندانی فلاح سے متعلق اس کے ہر فیصلے پر چوں چراں کیے بغیر ’آیا تایا جی ہونہی آیا‘ کہتے ہوئے لپک پڑیں گے۔ کچھ ممالک نے مروتاً سر ہلا بھی دیا ہے کہ ویہلے بابوں کا گر ایسی باتوں سے دل بہل جائے تو ہمارا کیا جاتا ہے۔

لیکن تابا جی سمیت کسی کو نہیں پتہ کہ اس مبینہ دفاعی پنچائت کا واضح ہدف دراصل ہے کیا؟ اگر تو دولتِ اسلامیہ ہے تو اس کے خلاف پہلے ہی درجن سے بھی زائد مسلمان اور غیر مسلمان ممالک بمباری کے ثوابِ جاریہ میں شریک ہیں۔ تو پھر یہ نئی چونتیسی کہاں فٹ ہوگی؟

سعودی وزیرِ دفاع محمد بن سلیمان کے بقول یہ اتحاد محض دولتِ اسلامیہ کے خلاف نہیں بلکہ ہر طرح کی انتہا پسندی کے خلاف نہ صرف مسلمان ممالک کی انفرادی کوششیں یکجا کرے گا نیز شام، عراق، افغانستان، مصر اور لیبیا میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک متحدہ حکمتِ عملی بھی اپنائے گا۔

34 ممالک کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں ایران کا نام تو بوجوہ غائب ہے ہی مگر وہ چار ممالک بھی غائب ہیں جہاں نیا اتحاد انتہا پسندی کی روک تھام کرے گا ۔یعنی شام، عراق، افغانستان اور لیبیا۔

البتہ فہرست میں یمن ضرور شامل ہے جس کی حکومت کے بارے میں یہی طے نہیں کہ آج کے دن ریاض میں قیام پذیر ہے یا کل عدن میں نمودار ہو گی اور جو اتحاد ابھی بنا ہی نہیں اسی کے چھ رکن ممالک اپنے ہی مجوزہ اتحادی (یمن) پر مسلسل حملے کیے چلے جا رہے ہیں۔

34 ممالک کی فہرست میں مملکتِ فلسطین کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ یہ جانے بغیر کہ باقاعدہ مسلح افواج اور طے شدہ سرحدوں سے محروم فلسطین اس مجوزہ اتحاد میں کیا نچوڑے گا۔

فہرست میں شامل سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کا کہنا ہے کہ وہ غور کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرے گا۔ لبنان کے صدر نے اتحاد کا خیر مقدم کیا ہے مگر وزیرِ خارجہ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ پہلے تو فہرست میں نام آنے پر چونکا مگر پھر اوپر سے ڈانٹ پڑی کہ جب بڑوں نے آپس میں طے کر لیا تو تجھے بقراطی کیوں سوجھ رہی ہے؟

چنانچہ 24 گھنٹے کے اندر اندر دفترِ خارجہ نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ ہمیں تو جنم جنم سے پتہ تھا کہ ہم اس اتحاد میں شامل ہیں۔

گویا عرب لیگ اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی عظیم الشان کامیابی کے بعد پیشِ خدمت ہے ایک ساتھ 34 سکرینوں پر ’34 بہادر ننانوے کے پھیر میں۔‘

یوں دی ہمیں خوشخبری کہ دنیا ہوئی حیران اے خادمِ حرمین تِرا احسان ہے احسان

متعلقہ مضامین

Back to top button