مقالہ جات

داعش مخالف عرب وغیر عر ب اتحاد کی حقیقت

تحریر: صابر کربلائی
حالیہ دنوں داعش کے خلاف بنائے جانے والے34ممالک پر مبنی ایک عربی و غیر عربی ممالک کے مشترکہ اتحاد کا بہت چرچا ہے لیکن اس اتحاد کی اصل حقیقیت کیا ہے؟ کیا کسی نے بھی اس اتحاد کے بارے میں حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے یا جان کاری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ اتحاد جسے داعش اور ہر قسم کے دہشت گردگروہوں کے خلاف بنایا جانے کا اعلان کیا گیاہے اور پاکستان کو بھی اس میں دھنسایا گیا ہے نہ جانے اس کے کیا عزائم ہوں گے اور پھر اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے؟
داعش کے خلاف بنائے گئے اس نئے عربی اور غیر عربی اتحاد کی خاص بات تو یہ ہے کہ اس کو بنانے میں سرگرم عمل سعودی عرب کے حکمران ہیں کہ جنہوںنے سنہ2011ء سے لے کر سنہ2015ء تک صرف شام میں ایک منتخب حکومت کو گرانے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر نہ صرف اسی داعش کے وجود کو جنم دیا تھا بلکہ شامی حکومت کا تختہ دہشت گردی کے راستے الٹنے کے لئے اسی داعش نامی تکفیری دہشت گرد گروہ کو مالی ، مسلح اور افرادی قوت بھی فراہم کرنے میں یورپ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سر فہرست تھے۔داعش کی مدد کرنے والوں میں بھی ستر ممالک شامل تھے جن میں مغربی اور عربی و خلیجی ممالک سب کے سب شامل تھے جبکہ اس موقع پر اگر کوئی شام کے لئے سہارا بن کر آیا تھا تو وہ یا تواسلامی ایران تھا یا پھر لبنان میں موجود حزب اللہ کہ جس نے نہ صرف غاصب اسرائیل کو متعدد مرتبہ شکست کا مزہ چکھایا ہے اب داعش کی کمر توڑنے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
ستر ممالک بشمول مغربی و یورپی اور عربی و خلیجی ممالک کی جانب سے وجود میں لایا جانے والا تکفیری دہشت گرد گروہ جب شام میں اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور چار سالہ طویل عرصے میں صرف اس تکفیری دہشت گردگروہ داعش نے معصوم انسانوں کا قتل عام کے سوا کچھ نہ کیا تو پھر اس گروہ کو انہی ستر ممالک کی جانب سے عراق میں داخل ہونے اور وہاں پر نیا محاذ کھولنے کے لئے سبز جھنڈی دکھا دی گئی لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوں کہ جب داعش کے تکفیری دہشت گردوں نے جنہیں نہ صرف امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی بلکہ سعودی عرب، ترکی، قطر، اور دیگر خلیجی ممالک کی مدد بھی حاصل تھی ان کو عرا ق میں بھی بد ترین شکست کا سامنا رہا اور عراق میں بسنے والی تمام اکائیاں متحد ہوکر اس خطرے کے خلاف نبرد آزما ہوگئیں۔اس صورتحال کو دیکھ کر داعش کے موجدین ستر ممالک ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ امریکہ اور یورپی ممالک فضائی کاروائی کریں گے ، اس مرتبہ بھی بظاہر نعرہ لگایا گیا تھا کہ داعش کے خلاف فضائی کاروائی ہو گی لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان مغربی اور یورپی ممالک نے نہ صرف شامی افواج کے ٹھکانوں کو نقصان پہنچایا بلکہ داعش کے ٹھکانوں پر مدد کے طور پر اسلحہ اور ضروری اشیاء بھی فراہم کی جاتی رہیں۔
امریکہ اور مغرب کی اس دوہری پالیسی کے باعث خطے کی دیگر قوتوں بشمول ایران، روس، چین، عراق اور حزب اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب داعش کے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی مکمل کمر توڑنے کے لئے روس فوجی کاروائی کا آغاز کرے اور پھر روس سمیت چین،عراق اور ایران کے بننے والے چار جمع ایک اتحاد نے داعش کے خلاف موثر کاروائی کا آغاز کر دیا جو کہ گذشتہ دو ماہ سے جاری ہے اور زمینی حقائق اب یہ بتا رہے ہیں کہ روسی جنگی طیاروں نے داعش نامی اس تکفیری دہشت گرد گروہ کی مکمل کمر توڑ دی ہے اور مسلسل ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہاہے اور زمینی سطح پر شامی افواج بھی بھرپور کاروائیاں انجام دے رہی ہیں ، داعش کے خلاف جاری اس موثر کاروائی کو پہلی مرتبہ داعش کے ایک اور بڑے حمایتی ترکی نے روس کے ایک طیارے کو نشانہ بنا کر اس کاروائی کو سبوتاژ کرنے کی مکمل کوشش کی لیکن ترکی اس میں بری طرح ناکام رہا۔
اس تمام تر صورتحال کے بعد جسے مختصر بیان کیا گیا ہے اب سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر نئے انداز سے اپنے آپ کو خطے کے معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے وارد کیا ہے تا کہ مغربی ایشیا ء کے اندر اپنی بالا دستی قائم کر سکے کیونکہ اس سے قبل سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کر کے دس ہزار سے زائد معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیا اور دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ اب سعودی عرب اکیلا ہی خطے میں راج کر سکتا ہے اور باقی تمام عرب اور خلیجی ریاستوں کو اس کا معاون اور مدد گار بن کر رہنا ہو گا لیکن یمن پر حملہ سعودی عرب کی حماقت ثابت ہوا اور خود سعودی عرب محدودیت کی دلدل میں دھنستا چلا گیاتاہم اب ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کی یہ کوشش ہے کہ داعش کے خلاف ایک اتحاد بنا لیا جائے تا کہ خطے میں اس کی بالا دستی قائم ہو جائے۔جہاں تک داعش کے خلاف بنائے جانے والے 34ممالک کے اتحاد کی ہے تو اس میں اکثریت ایسے عرب ممالک کی ہے کہ جو سنہ2010ء اور سنہ2011ء میں داعش کا وجود بنانے والے تھے اور اس کی مدد کرنے والے تھے۔
سعودی قیادت میں بننے والے داعش مخالف اتحاد کے بارے میں صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ سعودی عرب خطے میں بالادستی کے ساتھ ساتھ اپنے ان بنائے گئے تکفیری دہشت گرد گروہوں داعش، جبہۃ النصرۃ، طالبان، القاعدہ اور دیگر کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے کیونکہ شام میں روس ، چین، عراق، ایران اور حزب اللہ کے اتحاد نے ان دہشت گردوں کے لئے زمین تنگ کر دی ہے اور انہیں واصل جہنم کر رہے ہیںتاہم اب خود امریکہ اور اسرائیل سمیت سعودی عرب کی یہ خواہش ہے کہ دنیا کی توجہ ایک مرتبہ پھر منحرف کی جائے اور ایسے ممالک کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے بشمول پاکستان ، ملائیشیااور دیگر ان سب کو اپنے ساتھ اس اتحاد کا حصہ بنا لیا جائے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان نے بھی حماقت میں شمولیت اختیار کر لی ہے ، اب یا تو یہ حماقت ہے یا پھر سعودی پالیسی کی طرح ایک حکمت عملی ہے کیونکہ پاکستان میں بھی ان تمام تکفیری دہشت گرد گروہوں بشمول القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر کا وجود موجود ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان بھی سعودی عرب کی ایماء پر ان تمام دہشت گردوں کو پاکستان میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس نام نہاد اتحاد کا حصہ بن گیا ہے اور اگر واقعاً ایساہے تو پھر یقینا یہ حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے ان ستر ہزار شہداء کہ جن میں معصوم بچے، معماران پاکستان، ڈاکٹرز، علماء، زعماء، انجیئنرز اور پاکستان کے ہونہار افواج، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے جوان شہید ہوئے ہیں ، ان سب کے خون کے ساتھ دھوکہ ، خیانت اور غداری ہو گی۔جبکہ افواج پاکستان کی جانب سے جاری دہشت گردوں کے خلاف حقیقی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے داعش کے خلاف بنائے گئے 34ممالک پر مبنی اتحاد پر ویسے تو درجنوں سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کل تک یہی سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر شام میں حکومت کو گرانے کے لئے انہی دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہا تھا اور آج ان کے خلاف مسلمان ممالک کو اکھٹا کر رہا ہے، اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ شام میں جو ان دہشت گردوںنے ایک لاکھ سے زائد معصوم انسانوں کا قتل عام کیا اس سب کی ذمہ داری اب سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے اور اسی طرح اس کے ساتھ اتحاد میں شامل دیگر ممالک بھی کیا اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیں گے؟
دوسری اہم بات جو اس اتحاد کے بارے میں سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ سعودی قیادت میں بننے والایہ داعش مخالف اتحاد جن ممالک پر مشتمل ہے ان میں وہ دو ممالک تو موجود ہی نہیں ہیں کہ جو داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کے لاکھوں شہری اسی تکفیری دہشت گرد گروہ کے سفاک اور امریکی و اسرائیلی و سعودی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، جی ہاں عراق اور شام تو اس اتحاد میں موجود ہی نہیں؟؟؟اسی طرح ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل نہ کر کے سعودی عرب نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ داعش کو مکمل طور پر تباہ نہیں بلکہ تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔
ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں آج سعودی عرب سمیت ان تمام 34ممالک کے سربراہان مملک سے ایک ہی سوال کرتا ہوں کہ آخر مسلم دنیا کب قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لئے کوئی اتحاد بنائے گی ؟ یا یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچنے والے یہ عرب حکمران پوری مسلم دنیا کو صیہونی دہشت گردوں کے سامنے سر تسلیم خم کرواتے رہیں گے؟ یقینا انڈونیشیا جیسے ایک بڑی مسلم آبادی والے ملک کی جانب سے اس دھونسلے میں نہ آنے پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئیے اور پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کے مفاد کی خاطر کسی بھی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہئیے کہ جس کے بنانے والوں کے ہاتھ مظلوم مسلمانوں کے خون سے رنگیں ہوں یا پھر ان کا مقصد اپنے ہی پالے ہوئے دہشت گردوں کاتحفظ کرنا ہو۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام۔۔۔۔۔وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

متعلقہ مضامین

Back to top button