مقالہ جات

حرم سیدہ زینب (ع) کے دفاع کو بدنام کرنے والے اوریا مقبول اور سلطان لاکھانی کو مدلل جواب

اہل بیت اطہار (ع) کے روضہ ہائے مقدسات کا دفاع ہمارا عقیدہ !!
ابن تیمیہ کے پیرو کار اوریا مقبول جان اور اس کے سرپرست سلطان لاکھانی کو جواب

حالیہ دنوں خود ساختہ مفکر اوریا مقبول جان کہ جو روزنامہ ایکسپریس اخبار کے مالک سلطان لاکھانی کے منظور نظر بھی ہیں ایک کالم لکھ کر پاکستان میں جہاں فرقہ وارانہ نفرت اور شدت کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے وہاں انہوں نے داعش جیسے تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے شام اور عراق سمیت دیگر مسلم ممالک پر کی جانے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اوریا مقبول جان نامی پاکستان خود ساختہ مفکر پاکستان میں فرقہ واریت کو ہو ادینا چاہتا ہے اور عالمی سامراجی قوتوں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب سمیت داعش ، القاعدہ اور طالبان جیسے تکفیری دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار کر رہاہے۔

اوریا مقبول جان نامی اس ابن تیمیہ اور عبد الوہاب نجدی کے پیروکار خود ساختہ مفکر نے اپنے کالم میں شام اور عراق میں داعش اور جبہۃ النصرۃ سمیت دیگر تکفیری دہشت گردوں کو ایک طرف اہلسنت مسلمان قرار دیا ہے تو دورسی طرف اس جنگ کو دنیا میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کی جنگ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اگر اوریا مقبول جان جیسے کم عقل اور کم علم خود ساختہ مفکر کی بات مان لی جائے کہ شام اور عرا ق میں قتل عام کرنے والے دہشت گردتکفیری گروہ سنی مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اہلسنت عقیدہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان دنیا بھر میں دہشت گردی کر رہے رہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گرد گروہ خواہ وہ پاکستان میں ہوں، افغانستان میں ہوں یا پھر شام اور عراق میں مظلوم انسانوں کا قتل عام کر رہے ہیں سب کے سب کا تعلق اگر ملتا ہے تو وہ سعودی ناصبی ابن تیمیہ اور عبد الوہاب نجدی کے افکار سے ملتا ہے کیونکہ اہلسنت مسلمانوں کے نزدیک ابن تیمیہ اور عبد الوہاب نجدی کے افکار گمراہ کن اور ناقص ہیں اور اہل سنت عقیدہ رکھنے والے مسلمان آل سعود کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہیں لیکن دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی اور دہشت گرد موجود ہیں سب کا تعلق ابن تیمیہ اور عبد الوہاب نجدی جیسے گمراہ کن افراد سے ملتا ہے اور یہی معاملہ کچھ خود ساختہ مفکر اوریا مقبول جان کے ساتھ بھی ہے۔

ایک طرف جہاں سلطان لاکھانی کے منظور نظر اوریا مقبول نے اہلسنت مسلمانوں کے عقیدہ کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے تو وہاں شیعہ مسلمانوں کے عقائد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ، سلطان لاکھانی اور اوریا مقبول جان کو یہ بات زہن نشین کر لینی چاہئیے کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں اہل بیت اطہار (ع) کے روضہ ہائے مقدسات کا دفاع ہمارا عقیدہ ہے جبکہ ابن تیمیہ کے پیرو کاروں اوریا مقبول جان اور داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہوں کے دہشت گردوں کے نزدیک روضہ رسول اکرم (ص) سمیت اہل بیت اطہار (ع) اور صحابہ کرام کے روضہ ہائے مبارکہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اوریا مقبول جان کے آباؤ اجداد نے سنہ1926ء میں نہ صرف خاندان نبوت (ص) سے تعلق رکھنے والی بزرگ ہستیوں بشمول دختر رسول اکرم (ص) جناب سیدہ فاطمہ (س) کے روضہ ہائے مقدسات کو منہدم کر دیا تھا بلکہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س) کے روضہ اقدس کو بھی منہدم کیا گیا تھا اور آج اس روش پر تکفیری دہشت گرد گروہ شام اور عراق میں کاربند ہیں۔
ماضی قریب میں بھی داعش کے انہی تکفیری دہشت گردوں نے حضرت محمد (ص) کے قریبی ساتھیوں اور جلیل القدس صحابہ کے مزارات کو نقصان پہنچایا تھا اور اسی طرح شام میں یہ اعلان کیا تھا کہ بشار الاسد کے ساتھ ساتھ دمشق سے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کی نواسی ہیں کے مزاراقدس کو بھی نکال دیا جائے گا اسی طرح عبد اللہ ترکی نے عرا ق میں نجف اشر ف میں حضرت امام علی علیہ السلام کے حرم مقدس کے بارے میں گستاخی کی تھی اور سامرہ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے مزار اقدس کو متعدد مرتبہ انہی تکفیری دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا جس کے جواب میں عرا ق حکومت نے ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اس علاقے میں آپریشن شروع کیا تھا جو کہ خالصتاً دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تھا جسے اوریا مقبول جان نے سنی عقیدہ کے مسلمانوں کے خلاف آپریشن سے تشبیہ دے کر سنی مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور تفرقہ انگیزی پھیلانے کی کوشش کی ہے اور اس بات کی کوشش کی ہے کہ عرا ق میں مقد س مقامات پر حملہ کرنے والے سنی عقیدہ مسلمان تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ آج دنیائے تشیع عراق اور شام میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مزارات مقدسہ کی حفاظت پر مامور ہے جبکہ اوریا مقبول جان کے آباؤ اجداد کی طرح ان جیسے گمراہ اور جہالت کے عقیدے میں غرق داعش کے تکفیری دہشت گرد پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت (ع) اور جیلی القدر صحابہ کے مزارات کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔

سلطان لاکھانی اور ان کے منظور نظر خود ساختہ مفکر کے لئے آخر میں یہی پیغام ہے کہ ہر روز روزِ عاشورا ہے اور ہر شہر شہرِ کربلا ہے، جس دور میں جس کربلا میں بھی ضرورت ہو گی مکتب اہل بیت (ع) کے پروانے پروں کے بل فضا کرتے ہوئے یا ہاتھوں اور پاؤں کے بل رینگتے ہوئے وقت کے حسین کی مدد کے لئے پہنچیں گے اور رہتی دنیا تک وقت کے تمام یزیدوں اور یزیدی قوتوں خواہ وہ امریکہ کی شکل میں ہو، اسرائیل کی شکل میں ہو یا پھر سعودی عرب اور یا پھر ان سب کی لے پالک داعش جیسی تکفیری دہشت گرد قوتیں ہوں اور اسی طرح ان تمام کی اجرتوں پر پلنے والے اوریا مقبول جیسے داعش مائنڈ سیٹ کے لوگ ہوں سب کے خلاف نبرد آزما رہیں گے، یاد رہے کہ بھی یزیدیت نہ صرف سر نگوں ہوئی تھی بلکہ بد ترین ذلت و رسوائی کا شکار ہوئی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہو گا

متعلقہ مضامین

Back to top button