مقالہ جات

داعش کی پشت پناہی کے یورپ میں اثرات

فرانس میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد مغرب یہ واویلا کر رہا ہے کہ داعش امن کے لیے خطرہ ہے۔ پیرس میں ہونے والے دھماکوں سے چند روز بیشتر صدر اوبامہ کا کہنا تھا کہ داعش امریکہ کے لیے خطرہ نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ دنیا میں دہشت گردی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے طریقہ کار کو خیر آباد کہہ دے گا۔ پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد امریکی ریاست کیلیفورنیا میں معذوروں کے مرکز پہ ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر اوبامہ نے پھر کہا کہ ہو سکتا ہے یہ واقعہ کسی ذاتی پرخاش کی وجہ سے پیش آیا ہو، حالانکہ ایف بی آئی اور دوسرے تحقیقاتی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس واقعہ میں دہشت گردی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ شام میں صدر بشار الاسد کیخلاف فری سیرین آرمی اور بعد ازاں صدام کی باقیات پہ مشتمل داعش کی پشت پناہی امریکہ اور یورپ کی مشترکہ حکمت عملی تھی۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ مل کر شام اور عراق میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ برطانوی انٹیلی جنس اداروں کو عراق میں خفیہ دراندازی کا وسیع تجربہ ہے۔ امریکہ دہائیوں سے عرب ممالک میں اثرورسوخ کی بدولت اپنے مہرے استعمال کرتا رہتا ہے۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد مغرب متعدد گروپوں کو اسلامی جمہوری ایران، حزب اللہ اور صدر بشار الاسد کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔

مسلمان ممالک میں بیڈ گورنس، سیاسی استحصال، معاشی ناہمواری اور مذہبی شدت پسندی کیوجہ سے عوامی بےچینی اور مقامی آبادی اور حکمرانوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے۔ سیاسی تبدیلی ایک حقیقی ضرورت ہے لیکن مسلمان حکمران مغربی آشیرباد سے جھوٹی تسکین کے اصول کے ذریعے حکومتی تبدیلی کو سیاسی تغیر کا نام دیتے ہیں۔ مذہب کے نام پہ حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کو پہلے القاعدہ اور طالبان اور اب داعش کے نام پہ خلافت کا نعرہ دیا گیا ہے۔ تیسری دنیا کے اہلسنت عوام اسے عامیانہ انداز میں اور مغرب میں پرورش پانے والے اسے نظریاتی انداز میں قبول کر رہے ہیں۔ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد سلفی تبلیغات کیوجہ سے داعش کی طرف مائل ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمان مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کو بھی اچھے طرح محسوس کرتے ہیں، لیکن انہیں اسلام کی حقیقی تہذیب کے درست ماڈل سے دور رکھنے کے لیے وہابی اور مغربی قوتیں یکجا ہیں۔ اسامہ بن لادن کا نعرہ بھی یہی تھا کہ امریکہ چونکہ تیسری دنیا کے مسلمانوں کے استحصال کا ذمہ دار ہے اور مسلمان حکومتیں اور مسلمان عوام اس پہ خاموش ہیں، اس لیے یہ بھی ذمہ دار ہیں اور انکے خلاف جنگ جائز ہے۔ داعش کے ظہور کے بعد یہی نعرہ القاعدہ اور داعش کے سلفی نظریات سے متاثر ہونے والے مغربی مسلمانوں میں مقبول ہو رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے برطانیہ کے مقبول عام اخبار دا سن کی شہ سرخی یہ تھی کہ ہر پانچواں برطانوی مسلمان جہادیوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اس کے فوراً بعد برطانوی مسلمانوں کی جانب سے اس کی تردید کی جانے لگی اور مشتعل ویڈیوز جاری کی جانے لگیں اور سوشل میڈیا پر اس خبر کا مذاق اڑانے کے لیے 1in5muslims# ٹرینڈ کرنے لگا۔ اخباروں کے ضابطہ کار ادارے انڈیپنڈنٹ پریس سٹینڈرڈ آرگنائزیشن کو اس کے متعلق 2600 سے زیادہ شکایتیں موصول ہوئيں۔ اخبار دا سن نے یہ اعداد و شمار سروے کرنے والی کمپنی سرویشن سے حاصل کیے تھے، جنھوں نے حالیہ پیرس حملوں کے بعد ایک ہزار برطانوی مسلمانوں سے ٹیلیفون پر انٹرویو کیا تھا۔ اس میں ایک سوال یہ تھا کہ آپ درج ذیل میں سے کون سا بیان درست سمجھتے ہیں، مجھے ان نوجوان مسلمان بچوں کے ساتھ بہت ہمدردی ہے جو برطانیہ چھوڑ کر شام میں جنگجوؤں میں شامل ہو رہے ہیں۔ مجھے ان نوجوان مسلمان بچوں کے ساتھ قدرے ہمدردی ہے جو برطانیہ چھوڑ کر شام میں جنگجوؤں میں شامل ہو رہے ہیں۔ مجھے ان نوجوان مسلمان بچوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے جو برطانیہ چھوڑ کر شام میں جنگجوؤں میں شامل ہو رہے ہیں۔ مجھے پتہ نہیں۔ اس ہیش ٹیگ کو 74 ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کیا گیا ہے اور یہ محض برطانیہ ہی میں نہیں بلکہ پاکستان، ملائیشیا، آسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، قطر، جنوبی افریقہ، متحدہ عرب امارات اور امریکہ میں ٹرینڈ کر رہا ہے۔

خود مغربی ناقدین کا کہنا ہے کہ شہ سرخی میں جو جہادی کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ذکر سوال میں کہیں نہیں ہے۔ اور یہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ شام جانے والا ہر شخص دولت اسلامیہ یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کے لیے ہی لڑنے جا رہا ہو۔ ممکن ہے ان میں سے بعض دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والی کسی تنظیم میں شامل ہونے جا رہے ہوں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چار فیصد افراد نے بتایا کہ انھیں بہت ہمدردی ہے، جبکہ 14 فی صد نے بتایا کہ انھیں تھوڑی ہمدردی ہے۔ مجموعی طور پر یہ 18 فی صد ہوئے جسے داسن نے استعمال کیا ہے۔ اقلیتوں کے سروے کی ماہر مانچسٹر یونیورسٹی کی ماریا سوبولیوسکا کا کہنا ہے کہ لفظ ’ہمدردی‘ (sympathy) بھی مبہم ہے اور اس کے استعمال سے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کے دو معانی ہیں، کسی کی بدقسمتی پر رحم اور افسوس کا اظہار، لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم، مشترکہ احساس۔ سوبولیوسکا کا کہنا ہے کہ جواب دینے والوں کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے حالات انتہائي خراب ہیں، بڑے پیمانے پر جنگ و جدل جاری ہے اور شاید مغربی یورپ میں ان کے خلاف تعصبات پائے جاتے ہیں اور اس لیے وہ شخص ان لڑکوں کے لیے ہمدردی رکھتا ہے جو مایوسی کے عالم دہشت گردی کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ یا پھر یہ محض جذباتی مشترکہ احساس ہے یا پھر یہ کسی سطح پر دہشت گردی کو خاموش تعاون ہے، میری سمجھ سے بعد والے مفہوم تک پہنچنا بہت زیادہ کھینچا تانی کے مترادف ہے۔ اس فرق کی جانب انہوں نے بھی اشارہ کیا تھا جنہوں نے اس سروے میں مدد کی تھی۔

وائس نامی نیوز ویب سائٹ پر انھوں نے بغیر نام دیئے لکھا کہ جس طرح اتنا پیچیدہ مسئلہ پیش کیا گيا وہ اس پر متفق نہیں تھے۔ انھوں نے لکھا کہ جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ انھیں قدرے ہمدردی ہے، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ جہادیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک خاتون نے ہر سوال کا ہمیں بہت سوچ سمجھ کر جواب دیا۔ ان کے مطابق ڈیوڈ کیمرون شام پر بمباری کرنے میں حق بہ جانب ہیں اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کے نام پر کیے جانے حملوں کی مذمت کریں۔ پھر بھی انھوں نے کہا کہ انھیں نوجوان برطانوی مسلمانوں سے قدرے ہمدردی ہے۔ انھوں (خاتون) نے کہا کہ ان کی ذہن سازی کر دی جاتی ہے، مجھے ان کے لیے افسوس ہوتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں اس کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ برطانیہ میں ہر پانچواں مسلمان جہادیوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس سروے اور رپورٹ کی تیاری میں بدنیتی سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں تک تو درست ہو سکتا ہے کہ دنیا کی مسلم آبادی کی طرح یورپ اور بالخصوص برطانیہ کے مسلمان بھی فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر میں غیر مسلم طاقتوں کے ہاتھوں مظالم سہنے والے مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اس سلسلے میں یورپی ممالک اور امریکی حکومت کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں۔ لیکن یہ نتیجہ کیسے نکالا جا سکتا ہے کہ ہر پانچواں برطانوی مسلمان جہادیوں سے یا دہشت گردی کو جہاد کا نام دینے والوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ ممکنہ طور پر اس سازش کا حصہ ہو سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے یورپ کو قربانی دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کیا جائے، دنیا میں بلخصوص مغرب میں اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی لائی جائے، اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کیا جائے، مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک روا رکھنے کے بہانے تلاش کیے جائیں، مسلمانوں پر بے جا پابندیاں عائد کی سکیں، دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جائے، اسلام کی ترویج کے لیے ہونے والی کوششوں کو نقصان پہنچایا جائے۔

یہ سب اپنی جگہ پہ درست ہے لیکن تہذیبی کمزوری بالآخری سیاسی کمزوری اور ریاستی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ مغرب نظام اندر سے کھوکھلا ہے، اسوقت شدید دھچکوں کا شکار ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لندن میں صورت حال یہی ہو، جو بی بی سی کی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، نقل مکانی کے رجحان میں اضافہ اور تسلسل کے ساتھ مغربی قوتوں کی جانب سے مسلمانوں کا استحصال اس کا سبب بن سکتا ہے کہ یورپی مسلمانوں کی نئی نسلیں یعنی نوخیز ذہن آسانی سے تشدد کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یورپی حکمرانوں کو اب اس پہ نظر ثانی کرنی ہو گی کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یورپ کو تکفیریوں کی پناہ گاہ اور داعش کی تربیت گاہ بنانا کس حد تک نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دا سن نے برطانیہ کے سب سے ممتاز مسلمان سیاست دانوں میں سے ایک صادق خان کا حوالہ بھی دیا جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ دا سن کے مطابق صادق خان نے کہا کہ یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ برطانیہ کو اپنا سر ریت سے باہر نکالنا پڑے گا۔ اس خبر کے بعد برطانیہ کے دیگر میڈیا کے اداروں نے بھی اپنا رد عمل بھی ظاہر کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button