پاکستان

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدکیلئے تمام صوبوں کو کارکردگی دکھانا ہوگی

’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ ‘‘ میں تجزیہ کرتے ہوئے میزبان شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد کیلئے تمام صوبوں کو کارکردگی دکھانا ہو گی،لال مسجد کی تاریخ سیاہ باب خیال کی جاسکتی ہے ،سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام کے آپس میں تعلقات بہتر نہیں ہیں ،کراچی میں شاید ہی سرکلر ریلوے بن سکے ۔شاہزیب خانزادہ نے مزیدکہا کہ آصف زرداری نے آئی ایس پی آر کے گزشتہ روز آنے والے بیان پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے مشاو ر ت کا فیصلہ کیا ہے ، آصف زرداری نے آئی ایس پی آر کے بیان پر پارٹی رہنمائوں کے بیان کا نوٹس لے لیا اور پارٹی رہنمائوں کو بیان بازی سے روک دیا ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رہنمائوں کے بیانات پارٹی پالیسی نہیں – زرداری صاحب فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے کیا ڈائریکشن لینی ہے یا انہوں نے محسوس کرلیا ہے کہ آئی ایس پی آر کے بیان کا ملبہ سندھ حکومت پر گررہا ہے ۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے سب ہی صوبوں کو اپنی کارکردگی دکھانا ہوگی ۔اگر سیکورٹی اداروں کو سندھ حکومت تعاون کرتی نظر نہیں آتی تو معاملہ کیا ہے اور ایسا کیوں ہورہا ہے ان کو کہاں توجہ دینی ہوگی اور اپنی رفتار کو بہتر کرنا ہوگا ،خامیاں دور کرنا ہوں گی صرف پکڑنا ہی کافی نہیں سزائیں بھی دینا ہوں گی کیونکہ عسکری قیادت بھی کراچی میں جے آئی ٹیز کی کارکردگی پر سوالات اٹھارہی ہے ۔ کراچی آپریشن کو دو سال مکمل ہونے پر جو ریکارڈ سامنے آیا وہ حیران کن ہے ستمبر 2013سے اگست 2015تک مختلف عدالتوں میں 20ہزار 8سو 89 مقدمات کا چالان پیش کیا گیا لیکن صرف 860 مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں ،1098 کیسز میں ملزمان بری ہوئے اور یہ ریشو انتہائی کم ہے ، صرف 4.1 فیصد ملزمان کو سزا ہوئی ،انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں سے صرف 3.9 فیصد لوگوں کو سزائیں ہوئیں ۔ سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے ایک دن پہلے وزیراعلیٰ سندھ نے پراسیکیوشن میں ناکامی کا اعتراف کیا لیکن پراسیکیوشن کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ سندھ حکومت کا حال یہ ہے کہ سانحہ صفورا جیسے اہم کیس میں پیروی کرنے والے وکلا کو نہ ہی تحفظ فراہم کیا گیا نہ مناسب معاوضہ دیا گیا ۔ کراچی آپریشن پر بات کرتے ہوئے شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں جاری آپریشن میں کامیابیاں مل رہی ہیں لیکن سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام کے آپس میں تعلقات بہتر نہیں ہیں ،آئی جی کی ڈی آئی جی سے نہیں بنتی ، آئی جی اور کراچی پولیس چیف کے تعلقات اچھے نہیں ، ڈی آئی جیز ، آئی جی سے اتنے ناخوش ہیں کہ وہ وفاقی حکومت سے شکایت کررہے ہیں ۔ آئی جی سندھ اور پولیس حکام کے خلاف الزامات کی تحقیقات میں تیزی آئی تو وزارت داخلہ نے پولیس سینٹرل بورڈ قائم کردیا اور آئی جی سندھ کے اختیارات کو محدود کردیا اور خرچ کے معاملات اس بورڈ کو دیکھنے کی ہدایت کردی ۔ صورتحال یہ ہے کہ دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن آئی جی سندھ نے اس بورڈ کا اب تک اجلاس ہی نہیں بلایا ہے ۔ ڈرائیونگ لائسنس کے معاملے پر ڈی آئی جی ٹریفک کا فیصلہ بھی اندرونی سیاست کی نذر ہوگیا ۔ کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کا کوئی موثرنظام موجود نہیں ہے ۔مکان کرائے پر دینے کے قانون سازی کے معاملے پر عملدرآمد ہوسکا ہے اور نہ ہی کوئی پیش رفت ہوسکی ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کے ساتھ ساتھ ، سندھ حکومت گورننس کے معاملات میں بھی باقی صوبوں سے پیچھے دکھائی دیتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کر کرپشن روکنے کا نا تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی وہ اس کو بہتر کرنا چاہتی ہے اور جب ایف آئی اے اور نیب کارروائی کرتی ہے تو سندھ حکومت اور آصف زرداری کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے ۔ لال مسجد پر بات کرتے ہوئے شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ لال مسجد کی ایک ایسی تاریخ ہے جو کہ سیاہ باب خیال کی جاسکتی ہے وفاقی دارالحکومت کے حوالے سےجمعہ کو لال مسجد میں مولانا عبدالعزیز نماز پڑھانے آئے تو انہوں نے قرآن و سنت کے نفاذ کا اعلان کیا اور اس حوالے سے مدرسے کی بچیوں کو بلانے کی بھی بات کی ۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومتی گورننس پر سوال اٹھ رہے ہیں اس طرح کی صورتحال خطرناک بات ہے اور اس سے قبل کے صورتحال بگڑے وفاقی حکومت کو اس کا نوٹس لینا ہوگا ۔ وفاقی وزیر داخلہ کی کارکردگی پر اس حوالے سے سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ حکومتی سینئر وزراء آئی ایس پی آر آپریشن میں مناسب گورننس کے اقدامات کے حوالے سے پریس ریلیز کو ایک صوبے کی نیشنل ایکشن پلان پر کارکردگی سے جوڑ رہے تھے اور درست جوڑ رہے تھے کہ ایک پہلو ضرور ہے مگر مکمل طور پر جوڑنا غلط ہے کہ آج وفاقی دارالحکومت کے بیچوں بیچ ماضی کا متنازعہکردار ایک بار پھرحکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کا دعویٰ کررہا ہے ۔مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی اس پر بات کرتے ہوئے نمائندہ جیو نیوز اعزاز سید کا کہنا تھا ملٹری اسٹیلبمنٹ مولانا عبدالعزیز اورلال مسجد انتظامیہ کے خلاف کارروائی چاہتی ہے لیکن سول ایڈمنسٹریشن اور سول حکومت چاہتی ہے کہ کارروائی تو کرے لیکن کوئی قانون نہ توڑے ۔ مطلب یہ کہ اگر مولانا عبدالعزیز16mp اور دفعہ 144کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو سول ایڈمنسٹریشن ان کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہے لیکن سول ایڈمنسٹریشن جو پولیٹیکل وزڈم کے ساتھ یہاں پر موجود ہے لیکن وہ لال مسجد معاملے کو زیادہ چھیڑنا نہیں چاہتی اس کی وجہ یہ ہے کہ لال مسجد واقعہ سے پہلے پاکستان مین دہشت گردی کی شرح کم تھی لیکن اس واقعہ کے بعد 2007-08-09 میں پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ دہشت گردی کے واقعات ہوئے اس لئے موجودہ حکومت لال مسجد کو نیوٹرل کرنا چاہتی ہے ۔نمائندہ جیو نیوز حزیفہ رحمان کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کا تحریک نفاذ قرآن و سنت کا مطالبہ 8سال پرانا ہے ،ملک کے ریاستی ادارے اس بات پر چوکنا ہوئے ہیں کہ 8سال بعد یہ مطالبہ دوبارہ کیوں جاگا ہے ، انہوں نے انکشاف کیا کہ مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام احسان گزشتہ چار ماہ میں وزارت داخلہ کے تین سے چار چکر لگاچکی ہیں اور انہوں نے ایک درخواست وزارت داخلہ کو دی تھی جس میں مطالبہ تھا کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں لاہور کے علاقے واپڈا ٹائون جہاں پولیس اور حساس اداروں نے آپریشن کیا تھااور مولانا عبدالعزیز کے داماد حافظ سلمان کو گرفتار کیا تھاتاہم پولیس اس سے انکاری تھی ۔ جس کا نوٹس لینے کا کہا گیا تھا جبکہ ریاستی اداروں نے اس گرفتاری کی تصدیق کی تھی ۔ کراچی میں مون گارڈن کی زمین خالی کرانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا18 نومبر تک اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ نے کسی بھی کارروائی سے روک دیا ہے۔ کراچی میں ریلوے کی زمینوں پر قبضے اور قانون کی خلاف ورزی پر بات کرتے ہوئے شاہ زیب کا کہنا تھا کہ کراچی کے انڈسٹریل ایریا میں مختلف ٹائیکونز ہیں جو مختلف ایریاز میں زمینوں پر قبضے کرکے تعمیرات کرتے ہیں اب کراچی میں شاید ہی ممکن ہو کہ سرکلر ریلوے بن سکے ۔ریلوے کی وزارت کہتی ہے کہ ہم اس معاملے میں کہیں مدعی نہیں ہیں ابھی ہم ڈیٹا کا جائزہ لے رہے ہیں ، ہم چھان بین کررہے ہیں اگر ہمارے ریکارڈ میں یہ معاملہ نہ ملا تو ہم مدعی بنیں گے ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے یہ سارا معاملہ کیا ان لوگوں کے خلاف مدعی نہیں بنیں گے جنہوں نے زمین خریدی ۔صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مون گارڈن کے مکین تو قصور وار نہیں اس کے اصل قصوروار بلڈرز ہیں ۔ اتنے سالوں سے عدلیہ میں کیس چل رہا ہے یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ فیصلہ کیوں نہیں ہوپارہا اگر فیصلہ ہوجاتا تو یہ لوگ نہ لٹتے ۔ جو قصور وار ہیں اور چائنا کٹنگ والے ہیں ان کے خلاف انکوائریز ہورہی ہیں ، میں پہلے انکوائری اپنے ادارے سے شروع کروں گا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو مکین ہیں ان کی پیروی کے لئے بھی ہم نے وکیل رکھا ہے ۔ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ اگر میرے سامنے بے قاعدگیاں آئیں جس کے حوالے سے تحقیقات اور کارروائی ہورہی ہے اور جس بلڈر نے بھی ان کے ساتھ چیٹنگ کی ہے اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ بلاول بھٹو زرداری کی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کمپین پر بات کرتے ہوئے شاہ زیب کا کہنا تھا کہ بلاول کو سیاست میں کوئی سیریس لینے کو تیار نہیں ہے جبکہ حمزہ شہباز بھی اتنی ہی عمر میں سیاست میں آئے لیکن کسی نے کچھ نہ کہا ، بے نظیر بھٹو بھی اتنی ہی عمر میں سیاست میں آئی اور تنقید کانشانہ نہ بنیں ۔صرف عمران خان ہی نہیں متحدہ کے قائد الطاف حسین بھی بلاول کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ۔ بلاول کی جانب سے دہشت گردی اور دیگر معاملات پر بہت اسٹرونگ پوزیشن لی گئی ہے لیکن کوئی اب بھی سیریس لینے کو تیار نہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ خود زرداری صاحب نے کہا کہ بلاول کو میچور ہونے کی ضرورت ہے ۔مظہر عباس نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا اس کی بڑی وجہ خود پیپلز پارٹی ہے ، زرداری کا بیان اس حوالے سے ہی کافی ہے ، پیپلز پارٹی خود ہی بلاول کو کمزور کررہی ہے حالانکہ مزار قائد پر ان کی تقریر انتہائی میچور تھی ،بلاول کا یہ امیج بنایا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کو نہیں چلاسکتے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button