مقالہ جات

شہید قائد کی سیرت پر عمل، تمام مشکلات کا حل

ان دنوں ایک عظیم قائد کی برسی منائی جا رہی ہے۔ پاکستان کے کئی شہروں میں اس حوالے سے 5 اگست کو مختلف مقامات پر پروگرام ہوئے اور بعض مقامات پر ان دنوں ہو رہے ہیں۔ وہ قائد جس کی ان دنوں یاد منائی جا رہی ہے، ان کے نام سے تو پاکستان کا ہر شیعہ واقف ہے، لیکن ان کی سیرت، کردار اور قیادت کے طریقہ کار سے ایک عام شخص تو کیا بڑے بڑے خواص بھی نا آشنا لگتے ہیں۔ وہ قائد اپنے زمانہ قیادت میں پاکستان کے کونہ کونہ میں جا کر ملت کے افراد کا درد رکھتے ہوئے اسلام حقیقی کا پیغام پہنچاتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی اسی راہ میں قربان کر دیتے ہیں۔ جب یہ شخصیت دنیا میں آئی تو والدین نے جو نام رکھا وہ سید عارف حسین تھا، لیکن جب یہ شخصیت اس دنیا سے گئی تو ہر ایک کی زبان پر اس کا نام شہید قائد سید عارف حسین الحسینی تھا۔ جب انہوں نے دنیا میں اپنی آنکھ کھولی تو اپنے والدین کا بیٹا تھا، لیکن جب اس دنیا سے گیا تو معصومین (ع) کے بعد اسلام کی عظیم ترین شخصیت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ آج میں اپنے ایک عظیم بیٹے سے محروم ہوگیا ہوں۔

شہید کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ اس وقت تمام لیڈر حضرات موجودہ مشکلات کا حل شہید حسینی کی سیرت پر عمل کرنے میں پاتا ہے مثلاً: قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی فرماتے ہیں کہ وطن عزیز اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اسکی سالمیت، استحکام، استقلال اور خود مختاری کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی عوام شدید مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، جن کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اور اتحاد بین المسلمین جیسے فریضے کی ادائیگی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں ان حالات میں شہید قائد کی سیرت کی روشنی میں ان کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اپنی ذاتی خواہشوں اور آلائشوں کو دور رکھ کر باہمی اتحاد جیسی دولت سے مالا مال ہوکر اس جدوجہد میں نیا رنگ پیدا کرنا ہوگا۔ اسی طرح امت مسلمہ بین الاقوامی طور پر جن مصائب و آلام میں مبتلا ہے، ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی ہمیں شہید قائد کے افکار اور جدوجہد کی روشنی میں ایک متفقہ اور جاندار موقف اختیار کرنا ہوگا۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی نے کہا، آج کے دن شہید کی روح سے تجدید عہد کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ انہی کی فکر اور بتائے ہوئے راستے کو ہم لے کر چلتے رہیں گے اور ان کی عظیم قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ شہید حسینی امام کا وہ سچا فرزند تھا جو کربلا کا راہی تھا، جس نے اپنے لہو میں ڈوب کر خود کو امام مظلوم علیہ السلام کے سامنے سرخرو کیا۔ ہم اپنے قائد کو نہ پہچان سکے، آپسی جھگڑوں میں الجھے رہے، مقصر و وہابی کی بحث میں پڑے رہے۔ 9 اگست کو شہید کی برسی اسلام آباد میں منائی جائے گی، جس میں بھرپور شرکت کو یقینی بنا کر شہید کی فکر اور بصیرت کو زندہ رکھیں۔ مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان تہور حیدری نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کی ملت آج بھی شہید کے افکار کو فروغ دے تو ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تحریک بیداری امت مصطفٰی کے بانی علامہ سید جواد نقوی فرماتے ہیں کہ شہید کی راہ کی موٹی خصوصیت امت کے درمیان اتحاد و وحدت، شیعہ سنی کی برادری و اخوت اور طاغوت کا انکار و مقابلہ کرنا ہے۔

مذکورہ بالا شخصیات نے جو کچھ بھی انجام دیا ہے یا انجام دے رہے ہیں، واقعاً لائق تحسین ہے۔ ان اہم کاموں میں سے متحدہ مجلس عمل و ملی یکجہتی کونسل کی اشکال میں اتحاد بین المسلمین کی کوششیں، قانونی حوالے سے ملت تشیع کا دفاع، کیا یہ سب کام شہید قائد کی راہ اور سیرت کو زندہ رکھنا نہیں ہے؟ کیا آج تک کالج اور یونیورسٹیوں میں طلباء کی فکری تربیت کرکے انہیں ہر طاغوت سے نجات دلا کر الٰہی انسان بنانا شہید قائد کے اہداف میں سے نہیں تھا؟ کیا آج شیعہ مکتب کی سیاسی حوالے سے عزت و آبرو کو اجا گر کرنا، شہید قائد کا مقصد نہیں تھا؟ کیا امت مسلمہ کی بیداری کی کوشش کرنا شہید کا ہدف نہیں تھا؟ اگر یہ سب کچھ تھا تو ایک دوسرے کے مثبت نکات کو کیوں مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ ایک دوسرے کے بارے میں دلسوزی اور محبت کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب افراد فکر شہید حسینی اور سیرت شہید حسینی کی ترویج اور اسے باقی رکھنے کی نصیحت تو کرتے ہیں لیکن ہر ایک، اس چیز کو اس طرح بیان کرتا ہے گویا شہید کی فکر اور سیرت کو فقط انھوں نے سمجھا ہے اور باقی سب فقط دعویٰ کرتے ہیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں، کوئی ایک اپنی محافل میں دوسرے گروہ کے مثبت کاموں اور اقدامات کو بیان کرنا تو کجا بلکہ اشاروں اور کنایوں میں دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ شہید کی برسی کے ان دنوں میں اللہ تعالٰی سب اہل نظر اور خواص کو ایک دوسرے کے مثبت کاموں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

متعلقہ مضامین

Back to top button