سعودی عرب

سعودی عرب کی جیلوں میں داعشی قیدی، حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی

عربی پورٹل” المسلہ” نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ؛سعودی جیلوں میں دولت اسلامی عراق و شامات (داعش) دہشتگردوں اور تکفیری قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد نے وہابی سر زمین میں نفوذ پیدا کر لیا ہے اور یہ وہاں کی حکمران طبقے کے لیے بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے ہیں ۔

سعودی عرب کی طرف سے داعش اور اس کے جیسے گروہوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیے ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے ،اور دقیق لفظوں میں یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی کہ جب سعودی عرب کے آنجہانی بادشاہ ملک عبد اللہ بن عبد العزیز نے شام اور عراق میں جنگ کو یا  داعش یا جبہۃ النصرۃ کی مدد کرنے یا اس  کے ساتھ ملحق ہونے کو جرم قرار دے دیا تھا ۔

سعودی جیلوں میں راکھ کے نیچے چنگاریاں

لیکن جیلوں میں دہشت گردوں اور تکفیری قیدیوں کی تعداد میں اضافے سے پتہ چلتا ہے کہ ریاض نے تکفیری دہشت گردی کی حمایت کی صورت میں مدتوں پہلے جو بویا تھا اب وہ اس کو کاٹ رہا ہے ۔

بہتر لفظوں میں  اس وقت سعودی عرب کی پانچ اصلی جیلوں میں داعشی قیدیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ سعودی  وہابی سر زمین کی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے داعشیوں کا ایک لشکر موجود ہے اور یہی حالت راکھ کے نیچے چنگاری کے خطرے کو شدید تر کر دیتی ہے ۔

۴۲۰۹ قیدی اتنی بڑی تعداد ہے کہ جس کا اعلان رائٹرز نے ایک سعودی صوبیدار کے حوالے سے کیا ہے ۔

اس نے سعودی عرب کے سب سے بڑے سیاسی جیل خانے الجایر کے دیدار کے دوران کہ جو ریاض  کے جنوب میں ہے رائٹرز کے ساتھ گفتگو میں  یا بہتر لفظوں میں سلفی جہادی گروہوں سے وابستہ قیدیوں کی تعداد میں اضافے کے بارے میں تحقیق کے دوران اس تعداد کا اعلان کیا ۔

سعودی عرب کے جیل خانے الجایر اور چار دوسرے بڑے  جیل خانوں میں تکفیری گروہوں کے ہزاروں افراد قید میں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر جدید جہادیوں کی نسل سے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد کہ جو عرب افغانیوں سے تعلق رکھنے والی قدیم نسل سے ہیں یا وہ لو گ کہ جنہوں نے عراق میں جنگ کی ہے کم ہے ۔

یہ قیدی زیادہ تر جوان ہیں کہ جو شام میں جنگ کے شعلہ ور ہونے کے بعد وہاں جانے کے فراق میں تھے۔

سعودی رہنماوں کی غفلت اور داعشیوں کی موقعہ پرستی

ایسی حالت میں کہ جب سعودی رہنماوں نے اپنے سر ریگزاروں میں چھپا رکھے ہیں اور غفلت میں جی رہے ہیں داعش والے حجاز کی سر زمین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے منسب جگہ مانتے ہیں ۔

ایک عرب قلمکار خلیل کوثر نے اس سلسلے میں کہا : ان قیدیوں پر جو الزامات عاید کیے گئے ہیں ،وہ ہیں سرکشی اور سعودی فتووں کی اطاعت نہ کرنا ،عراق اور شام جانا ، گمراہ گروہوں کے خلاف جنگ میں شر کت کرنا  یا ان کی حمایت کرنا ، نیز ایسے جرائم کہ جو بادشاہ کے ۳ فروری ۲۰۱۴ کے دستور میں ذکر کیے گئے ہیں ۔

اس کے بقول ریاض اور جدہ کی جرائم کی سزا دینے والی عدالتیں  بھی کما کان جیلوں میں ڈالنے اور ان افراد کے سفر پر پابندی لگانے میں سر گرم ہیں ۔

سعودی عرب کی وزارت داخلہ کا قیدیوں کی تعداد ک کرنے پر فخر کرنا ۔

دو سال پہلے ان افراد کی تعداد کہ جن کو ان الزامات کے تحت پکڑا جاتا تھا اس تعداد سے بہت کم ہے کہ جس کا سامنا آج ہم کر رہے ہیں ۔اس معنی میں کہ نومبر ۲۰۱۳ میں سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے امنیتی مسائل کے قیدیوں کی تعداد میں ۶۰ فیصد کمی کی بات بڑے فخر سے کہی تھی اور بتایا تھا کہ ان کی تعداد ۲۲۸۹ افراد ہے جب کہ دسمبر ۲۰۱۰ میں ان کی تعداد ۵۵۰۱ بتائی گئی تھی ۔

قیدیوں کے ساتھ سودا ؛ شام میں جنگ کے بدلے میں آزادی

موجودہ اسناد اور معلومات کی بنیاد پر اتنا بڑا فرق ،اس لیے پڑا کہ شام میں جنگ کے آغاز میں ان افراد کو شام میں جنگ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا ،دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ سودا کیا گیا کہ وہ آزادی کے بدلے شام میں جنگ کرنے کے لیے جائیں گے ۔

لیکن اس زمانے میں سعودی حکومت نے اپنی سبز پاسپورٹ جاری کرنے کی احمقانہ سیاست کی بنا پر انتہا پسندوں کے بڑے لشکر سے نجات نہیں پا سکی ،بلکہ اس کے بالکل بر عکس ان افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ،نئے اعداد و شمار کے مطابق سعودی جیلوں میں بند داعشیوں کی تعداد ۴۲۰۹ ہے ، کہ جو ۸۴ فیصد اضافے کی داستان بیان کر رہی ہے ۔

اگر ان لوگوں کی تعداد کو کہ جو شام اور عراق میں داعش کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں ان میں جوڑیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب کو اب سعودی داعشیوں کی ایک فوج کا سامنا کرنا پڑ گا یہاں تک کہ یہ حالت ایک غیر معمولی خطرے کی حکایت کرتی ہے جو نظال آل سعود کو در پیش ہے اور خاص کر یہ کہ سعودی مدارس میں وہابیوں کے افکار اور ان کا مذہبی اور تعلیمی شیوہ ان افراد کے لیے جذابیت رکھتا ہے ۔

اس ے ثبوت کے طور پر فہد القباع کی حالت دیکھی جا سکتی ہے کہ جس نے کویت میں مسجد امام صادق ع پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا اس لیے کہ وہ ایک ایسے خاندان سے تھا کہ کہ جس بھائی اور قریبی دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔بہتر لفظوں میں یہ حالت ایک ایسے و بہ رشد وجود کے پیدا ہونے کی نشاندہی کرتی ہے کہ جو قیدیوں کے خاندان والوں کے اندر پیدا ہوا ہے ،اس طرح کہ سعودی عرب میں تکفیری کی حمایت  جوان نسل تکفیریوں کی تربیت کے لیے مناسب راستہ ہموار کر دیا ہے ۔

بہر حال ایسے حالات میں کہ جب سعودی حکمران غفلت کی نیند سو رہے ہیں ،داعش کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سعودی عرب کے اندر وہ اپنے اہداف و مقاصد تک کیسے پہنچیں گے ،اسی بنا پر اس گروہ کے سرغنے ابو بکر البغدادی نے محمد بن عبد الوھاب کے پوتوں کو مخاطب بنایا ہے اور اطمئنان کے بارے میں ان سے بات کرتا ہے ،اور اس طرح واضح ہے کہ جدہ اور ریاض کے محلوں کے سربراہاں آج داعشیوں کی ایک فوج کے مقابلے پر ہیں کہ جس نےاسی دوران ان کے اندر رخنہ اندازی کی ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button