مقالہ جات

برکتیں، رحمتیں اور لعنتیں

ماہِ مبارک اپنی رحمتوں، برکتوں اور بخشش مآب فضیلتوں کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے، جہاں پر خدا کے متقی بندوں کے لئے ایک عید دائمی مسرتوں کی بشارت لئے تیار کھڑی ہے۔ اس سال یہ مہینہ دنیا کے کچھ خطوں میں شدید موسم میں آیا ہے۔ کچھ روایات کے مطابق شدید گرمی کے عالم میں خدا کی خوشنودی کی خاطر رکھے گئے روزوں کی فضیلت بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ یا یوں کہیئے کہ جتنی مشقت شدید، اتنا ہی اجر بھی عظیم۔ خدا سے دعا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں خدا کے بندے اس کو راضی کرنے اور اپنے نفس کی طہارت کے لئے ماحولیاتی شدائد کا مقابلہ کرتے ہوئے روزے رکھ رہے ہیں، خدا ان کی ان زحمات کو بعنوانِ عبادت اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور سب کو روزے کا مدعا یعنی تقویء الٰہی عنایت فرمائے۔ آمین۔

ہماری یہ دعاء خاص ان روزہ داروں کے لئے ہے، جن کے سروں اور گھروں پر آسمان سے بم برسائے گئے اور اب وہ خرابوں کے کھنڈروں میں کھلے آسمان تلے کبھی بھوک کے دسترخوان سے سحری چن کے کھا رہے ہیں اور پیاس کی سبیل سے افطار کرکے سجدہء شکر ادا کر رہے ہیں۔ خدا ان مظلوموں کی دادرسی فرمائے جنکے گھروں کو لوٹ لیا گیا، انکے مَردوں کو مُردوں میں تبدیل کر دیا گیا اور جنکی عصمتیں سرِ بازار ایک سگریٹ کی ڈبی کے عوض نیلام کی جا رہی ہیں۔ خدا اپنی حجتؑ کا دستِ شفقت رکھے ان بچوں کے سروں پر جنکا حال، بے حال اور مستقبل نامعلوم ہے۔ خدا ان زخمیوں کے حالوں پر رحم فرمائے جن کے جسم اب سلامت نہیں رہے۔ خدا ان روحوں کو بھی صحت بخشے کہ جو جاں بہ لب جسموں میں مرضیء معبود تک مقید رہنے کی پابند ہیں۔ خدا ان قلوب و اذہان کو سکون عطا فرمائے کہ جن میں آنکھوں سے دیکھے گئے مظالم تاحشر دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔

خدا ان سماعتوں کو سکون عطا فرمائے کہ جو ظلم و جور کے شور و غوغا اور واویلہ سے نبرد آزما ہیں۔ خدا ان پتھرائی ہوئی آنکھوں پر اپنا رحم و کرم نازل فرمائے، جو اپنی موت تک کسی کی راہ تکتی رہ جائیں گی، لیکن تشنہ ہی رہیں گی۔ خدا ان شہداء کے رزق میں وسعت و برکت عطا فرمائے، جنہوں نے میدانِ جہاد میں اور حالتِ نماز میں اسکی پکار کو لبیک کہا اور اپنی جانوں کو اسکی بارگاہ میں بصد شوق پیش کیا۔ خدا ان پسماندگان کے حوصلوں کو بلند فرمائے کہ جنکا سوائے اس ذاتِ رحیم کے اور کوئی نہیں۔ خدا ہر اس مظلوم کا حامی و ناصر ہو، جو دنیا کے کسی بھی کونے میں ظالم کے ظلم کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے۔ آمین ثم آمین۔

خدا کی بدترین لعنت ہو پہلے ظالم پر کہ جس نے ظلم کی بنیاد رکھی اور بعد میں آنے والے ظالمین پر کہ جنہوں نے ظلم کی دیوار استوار کی۔ خدا کے بدترین عذاب کے سزاوار ٹھہریں وہ وحشی جو مظلوم اور بے کس انسانوں پر اپنی طاقت کا نشہ آزماتے ہیں۔ جہنم کے بدترین درجوں کا عذاب ان کا مقدر ہو جو بے گناہ آبادیوں کو تہہ و بالا کرتے ہیں۔ خدا کا غضب ان ظالموں کے شاملِ حال ہو جو خود ایک عورت کے توسط سے دنیا میں آئے اور اسی عورت کی عصمت دری اور تجارت کی لعنت میں مبتلا ہوئے۔ نارِ جہنم کے خوفناک گڑھے انکا مسکن بنیں، جنہوں نے اس دنیا میں بے گناہ مظلوموں کے جسموں کو اپنی عناد اور اس دنیا کی آگ کا ایندھن بنایا۔

خدا ان شیطانوں کے مکر و فریب کو انہی کی جانب پلٹا دے، جو انہوں نے مظلوم انسانیت کے حسد میں انسانوں کے خلاف روا کیا۔ خدا ذلیل و رسوا کرے اس دنیا کو جہنم بنانے والوں کو اور ہم سب کو انکے شر انگیز فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ بارِ الٰہا! قبولیت کی ان گھڑیوں میں ہماری ان دعاؤں کو مظلوم اہلِ بیت اطہارؑ کے صدقے میں شرفِ قبولیت بخش دے کہ جو تیری خوشنودی کی خاطر ظلم سہتے رہے اور دنیا والوں کو ظلم سہنے کا سلیقہ سکھلا گئے۔ مالک! دشمنانِ اہلِ بیتؑ و انسانیت کو نیست و نابود کرکے رہتی دنیا تک کے لئے نشانِ عبرت بنا دے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔ مظلومین کے لئے دعاؤں اور ظالمین کے لئے بددعاؤں کا یہ سلسلہ ازخود دل کی گہرائیوں سے جاری ہوجاتا ہے، جب جب سحر و افطار کے اوقات میں یا دن بھر بھوک، پیاس اور گرمی کے عالم میں یمن، فلسطین، شام اور عراق کے بے گھر مؤمنین کا خیال آتا ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ اول خویش بعد درویش۔۔۔۔ دنیا جہاں میں جہاں جہاں مظلوم ہیں، وہ میرے قبیلے کے افراد ہیں اور جو جو ظالم ہیں، وہ میرے دشمن اور میری بددعاؤں کے مستحق ہیں۔ چاہے ظلم کا یہ میدان شام، عراق، فلسطین، بحرین، سعودیہ، کویت میں سجا ہو یا میرے اپنے وطن پاکستان میں۔۔۔ اول سے لیکر آخر تک ہر ظالم، مظلوم کی بددعاؤں اور خدا کے غضب کا سزاوار ہے۔ چاہے وہ غزہ یا یمن پر بمباری کرنے والا ہو، سعودیہ و کویت میں نمازیوں کو شہید کرنے والا ہو، شام و عراق میں روح کپکپا دینے والی شیطنت میں مصروف ہو یا پاکستان کے ایوانوں میں عیش و عشرت کے ساتھ غریبوں کے استحصال میں مگن ہو۔

آخری خبریں آنے تک صرف کراچی میں گرمی سے تین ہزار اموات واقع ہوچکی ہیں اور مزید اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ جو اموات ہوچکی ہیں، انکو رکھنے کے لئے سرد خانے کم پڑگئے۔ دفنانے کے واسطے قبرستان ختم ہوگئے اور قبر کھودنے کو گورکن انکاری ہوگیا۔ محض ایک ہفتے کے دوران ایک ارب روپے کے ائیر کنڈیشنرز منہ مانگے داموں میں فروخت ہوئے ہیں اور ان ائیر کنڈیشنرز کو چلانے کے واسطے بجلی بھی ناپید کر دی گئی ہے۔ اس تمام صورتِ حال میں حکومت، ریاست، انتظامیہ، عدلیہ اور فلانیہ ڈھمکانیہ نامی بد روحوں کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ عوام اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد میں مصروف ہیں۔ جگہ جگہ تمبو لگا کر لوگوں کے لئے کھانے پینے اور دواؤں کا انتظام کچھ فلاحی تنظیموں نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ کچھ خدا ترس لوگوں نے جگہ جگہ ایمبولینس سروس سڑکوں پر جاری کی ہے، جو عارضی اور دائمی بے ہوش ہونے والوں کو ہسپتال نامی عمارتوں تک پہنچانے کا کام کر رہی ہیں۔ قبروں کی نایابی کے باعث لاشوں کو اجتماعی گڑھوں میں دفنایا جا رہا ہے۔ (الامان و الحفیظ!)

یہ ہے صرف گرمی کی ایک لہر کا ایک جلوہ۔۔۔ جو خدا نے مثالاً پیش کیا۔ ماہرین یہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ ایسی موسمیاتی تبدیلیاں مستقبل میں معمول بن سکتی ہیں۔ (یاد رہے کہ اس ملک کے ایوانوں میں ماحولیاتی تبدیلی نامی اربوں روپے کے بجٹ کی حامل ایک باقاعدہ وزارت بھی موجود ہے۔) اس گرمی سے متصل چند دن بعد برسات تیار کھڑی ہے, جو کراچی کے بعد باقی کا ملک سیلاب میں بہا لیجائیگی۔ لیکن ۔۔۔ اہلِ اقتدار اپنی دولت و طاقت کے نشے میں بدمست رہیں گے۔ وہ خود ساختہ اہلِ اقتدار جو سعودی شہنشاہیت پر براجمان ہوں، داعشی خلافت کے داعی ہوں۔۔۔ یا پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوامی نمائیندگان۔۔۔۔ میرے خیال میں ظالمانہ کارروائیوں کے انداز سے مختلف ہوں تو ہوں، ارادوں اور نیتوں میں ساجھے ہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button