مقالہ جات

دہشتگرد، مدارس کی نقاب یا فوجی عدالتیں؟

پاکستانی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دو تہائی اکثریت نے 21ویں آئینی ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کو منظور کرلیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 275ع میں ترمیم 2سال تک نافذ العمل رہے گی۔ آئین کا یہ آرٹیکل پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں ہے۔ پاکستان کو 100ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اور ہزاروں انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے دہشت گردوں کو سزا دینے کے لئے یہ ترمیم ناگزیر تھی۔ 2سالوں تک فوجی عدالتیں ان کے مقدمات سنیں گی اور سزائیں سنائیں گی۔ عام عدالتی نظام تحفظ پاکستان ایکٹ، آرمی ایکٹ اور نیوی ایکٹ کے تحت چلنے والے مقدمات پر لاگو نہیں ہوگا۔ حسب توقع حکمران مسلم لیگ نواز، پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے آئینی ترمیمی بل کی حمایت کی۔ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی اور سراج الحق کی جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں شرکت ہی نہیں کی۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن کے قیام تک پارلیمنٹ سے دور رہنے کی پالیسی کو ترک نہیں کیا۔

سانحہ پشاور کے عظیم شہید بچوں کے قاتلوں کو سزا دینے کی بات کرنے والوں میں تو سبھی شامل تھے لیکن جب سزا دینے کا طریقہ کار وضع کرنے کا وقت آیا تو ثابت ہوا کہ قول و فعل کا تضاد بعض پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کی سرشت میں شامل ہے۔ پاکستان میں نظام عدل و انصاف پر ایک لطیفہ آج کل زبان زد عام ہے کہ اگر آپ کو انصاف درکار ہے تو اس کے لئے آپ کے پاس محض 3چیزیں ہونا لازمی ہیں: ایک عمر نوح ؑ ،2 قارون کا خزانہ اور 3 صبر ایوب ؑ ! اگر عام عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزا دینے میں کامیاب ہوتا تو آج سزا کے خوف سے نئے دہشت گرد نہیں پیدا ہوتے۔ پاکستانی شہداء کے ورثاء کی شکایت یہی ہے کہ سزا یافتہ دہشت گرد بھی باعزت بری کر دیئے جاتے ہیں۔ 10سال بعد عدالت کہتی ہے کہ ثبوت ناکافی تھے۔ اگر ایسا تھا تو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 10سال پہلے سزا ہی کیوں دی تھی۔؟

قوم جب مولانا فضل الرحمان صاحب کی تقریر سن رہی تھی تو حیرت اور افسوس کے ساتھ ماضی کو یاد کر رہی تھی کہ یہ مخلوق جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے اس کا نام طالبان ہے اور انہی مولوی حضرات کے توسط سے دنیا کو معلوم ہوا تھا کہ طالبان مدارس کے طالبوں پر مشتمل ایک گروہ ہے، لیکن مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں! ’’دہشت گرد مسلمان ہی نہیں، انسان ہی نہیں،‘‘ یہ بیان کافی نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے جانور نہیں اور کافر بھی نہیں۔ احسان اللہ احسان سے لے کر شاہد اللہ شاہد تک، عبداللہ محسود، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود سے لے کر ملا ریڈیو فضل حیات عرف فضل اللہ تک، ایسے بہت سے مردہ یا زندہ انسانوں کے نام پوری پاکستانی قوم کے سامنے ہیں، جنہوں نے علی الاعلان دہشت گردی کی۔

یہ پاکستان ہے، جہاں کبھی پاکستان کے سکیورٹی ادارے بانی پاکستان کے مزار کے اطراف کی سڑکوں کو بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس اطلاعات ہوتی ہیں کہ فلاں دہشت گرد گروہ یہاں بھی دہشت گردی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کبھی جیلوں کے اطراف کی سڑکیں عام ٹریفک کے لئے بند کر دی جاتی ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد کی صورتحال یہ ہے کہ 11جنوری تک اسکولوں کی تعطیل میں توسیع کر دی گئی ہے۔ کچھ نہیں معلوم کہ مزید توسیع کرنا پڑ جائے۔ کیا یہ سب کچھ بغیر کسی خطرے کے پیش نظر کیا جا رہا ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں تو پھر طالبان کیا پشاور آرمی پبلک اسکول سے فارغ التحصیل ہیں؟ لندن میں 7 جولائی 2005ء کو جو بم دھماکے کئے گئے، اس میں ملوث دہشت گردوں کے قدموں کے نشانات کالعدم جیش محمد کے مدرسہ جامعہ فتح الرحیم فیصل آباد اور کالعدم سپاہ صحابہ کے لاہور کینٹ میں واقع مدرسے جامعہ منظور الاسلامی تک دیکھے گئے۔ یاد کریں شہزاد تنویر اور اسامہ نذیر کے نام۔

30 ستمبر 2006ء کو کابل میں 12 شہری ایک خودکش حملے میں شہید ہوئے۔ اس خودکش حملہ آور کے 3 مزید ساتھی بھی تھے جنہیں ناکام کر دیا گیا۔ افغان اداروں نے کہا کہ کراچی کی مانسہرہ کالونی کے مدرسے میں انہیں تربیت دی گئی تھی۔ جولائی 2006ء میں علامہ حسن ترابی نماز جمعہ کے بعد جامعہ بنوریہ کے باہر ایک اجتماع سے خطاب کے بعد عباس ٹاؤن کراچی میں اپنے گھر کے قریب خودکش حملے میں شہید کر دیئے گئے۔ حملہ آوروں کا تعلق موسٰی کالونی کراچی کے ایک مدرسے سے تھا۔ 13 جولائی 2009ء میاں چنوں چک 129/15-L میں ریاض کمبوہ کے مدرسے میں دھماکہ ہوا، بچوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے، 30 گھروں کو نقصان پہنچا، خودکش حملہ آوروں کی 2 جیکٹ، راکٹ لانچر اور وہ لٹریچر جسے طالبان اور ان کے اتحادی ’’جہادی‘‘ کہتے ہیں، یہ سب وہیں سے برآمد ہوا تھا۔ مدرسے کی آڑ میں یہ سب کچھ کون کر رہا تھا؟ میاں چنوں میں کونسا جہاد ہو رہا تھا اور کن کافروں کے خلاف ہو رہا تھا۔؟

17 اپریل 2014ء کو انگریزی اخبار ڈان کی خبر کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد پولیس کی تیار کردہ مشترکہ رپورٹ کے مطابق ان دونوں شہروں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو انتہا پسند مدارس کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور جب بھی انہوں نے دہشت گردی کی تو وہ اس میں تنہا نہیں تھے۔ اس رپورٹ میں مدارس کے نام بھی تحریر ہیں کہ پیر عزیز الرحمان ہزاروی کے زیر انتظام جامعہ دارالعلوم زکریا بستی، انوارالمدینہ، سرائے خربوزہ، ترنول اور فضل الرحمان خلیل کی شمس کالونی گولڑہ میں قائم جامعہ خالد بن ولید۔ اب مزید کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ ویسے بھی یہ جتنے بھی کالعدم دہشت گرد گروہ ہیں، کیا ان کے اپنے مدارس نہیں ہیں؟ حضور شتر مرغ بننے سے کیا فائدہ؟ اب ان کھوکھلی باتوں سے دہشت گردوں پر نقاب نہیں ڈالی جاسکتی۔

میاں چنوں مدرسے کی حقیقت جب بے نقاب ہوئی تھی، تبھی علمائے کرام کے ایک وسیع حلقے کی جانب سے مدارس پر کریک ڈاؤن کا مطالبہ سامنے آگیا تھا۔ یہاں ہمارا اصل موضوع مدارس نہیں ہیں بلکہ مذہب و فرقہ کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف عملی قدم اٹھانے کے لئے محض 2سالوں کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام ہے اور اس کے لئے 21ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری پر تبصرہ ہے۔ مدارس کا تذکرہ مولانا فضل الرحمان صاحب کے قومی اسمبلی میں خطاب کی وجہ سے کرنا پڑگیا ہے۔ جی ہاں، سارے مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں، لیکن سارے پاک صاف بھی نہیں اور وزیر داخلہ کے مطابق 10 فیصد دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

علیحدگی پسندوں یا لسانی بنیادوں پر تشدد کی سیاست کرنے والوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کارروائی جاری ہے اور پوری قوم کو معلوم ہے کہ یہ کارروائی ہو رہی ہے، تحفظ پاکستان ایکٹ کی منظوری بھی اسی کارخیر کے لئے دی گئی تھی۔ لسانی یا علیحدگی پسندوں کی تو لاشیں بھی مل رہی ہیں اور انہیں تو بغیر کسی مقدمے کے بھی مارا ہی جا رہا ہے، سانحہ پشاور یا اس جیسے دیگر سانحات میں ملوث تکفیری دہشت گردوں کو تو عدالتوں سے سزا ہونے کے بعد بھی نہیں مارا گیا۔ ان کے لئے تو جیل بھی گھر کی طرح ہے اور جب چاہیں توڑ کر نکل جائیں، قوم یہ سب کچھ دیکھتی آئی ہے۔ قانون کا غلط استعمال روکنے کی ضرورت عام قوانین کے لئے بھی ہوتی ہے۔ اس لئے 21ویں آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کے لئے کوئی ٹھوس دلیل تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور عمران خان کو کھل کر تکفیری دہشت گردی کے خلاف قائم ہونے والے پارلیمانی اتحاد کا ساتھ دینا چاہئے تھا۔ ان کی سیاست سے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی دہشت گردوں کو ریلیف دینے کے حق میں ہیں۔ قومی امنگوں کے مطابق کوئی فیصلہ کرتے تو بہتر ہوتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button