مشرق وسطی

داعش کی حیوانیت، ایک 14 سالہ لڑکے کی زبانی

ایک موبائل فون ویڈیو میں دولتِ اسلامیہ (داعش) کے شدت پسندوں کو ایک 14 سالہ شامی لڑکے پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس ویڈیو کو داعش سے تعلق رکھنے والے ایک سابق جہادی نے فلمبند کیا ہے، اس میں اس لڑکے کے ہاتھ باندھ کر اس پر تشدد ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے دولتِ اسلامیہ اور دیگر مسلح گروہوں پر شام اور عراق میں بچوں پر تشدد اور انھیں قتل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو دولتِ اسلامیہ میں بھرتی کرکے اور انھیں عسکری تربیت دے کر میدانِ جنگ میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک اور نوجوان کا کہنا تھا کہ اس نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروہ ‘‘النصرہ’’ کی طرف سے لڑتے ہوئے صرف پندرہ سال کی عمر میں کیسے کیسے قتل کئے۔ جب وہ النصرہ سے دولتِ اسلامیہ میں گیا تو وہاں اس نے تیرہ سالہ لڑکوں کو تربیت حاصل کرتے دیکھا۔

مذکورہ موبائل فون ویڈیو میں 14 سالہ احمد کو زمین سے تقریباً دو فٹ اونچائی پر لٹکتا دکھایا گیا ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے اور دو نقاب پوش آدمی، سر سے پاؤں تک کالے لباس میں ملبوس اے کے 47 کے ساتھ اس کے آگے پہرہ دے رہے ہیں۔ بعد ازاں وہ احمد کو چھت سے باندھ کر مار پیٹ کرنے لگتے ہیں۔ 14 سالہ احمد، جو کہ اب ترکی میں ہے، کہتا ہے کہ میں نے اپنے والدین خصوصاً اپنی ماں کے بارے میں سوچا، مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گا اور اپنے والدین، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو اکیلا چھوڑ جاونگا۔ مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گا۔ انھوں نے مجھ پر کوڑے برسانا شروع کر دیئے۔ میں نے انھیں سب کچھ بتا دیا۔

عراق کے شمالی شہر رقہ میں احمد اپنا گزر بسر کرنے کے لئے ڈبل روٹی فروخت کرتا تھا۔ اس کے جاننے والے دو افراد نے اسے ایک بیگ تھمایا اور کہا کہ اسے دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانے کے پاس رکھ آو۔ لیکن درحقیقت احمد کو دھوکے سے وہاں بم نصب کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ شدت پسندوں کو احمد کی عمر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسکا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اس پر دو دن تک تشدد جاری رکھا۔ جب انھوں نے مجھے کرنٹ لگایا تو میں نے اپنی والدہ کو پکارنا شروع کر دیا، لیکن جیسے ہی میں نے ان کا نام لیا تو تشدد کرنے والے نے کرنٹ کا وولٹیج اور بڑھا دیا اور مجھ سے کہا کہ اپنی ماں کو اس میں مت لاؤ۔

احمد کہتا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند کہتے ہیں کہ وہ مذہبی ہیں لیکن اصل میں وہ کافر ہیں۔ وہ سگریٹ پیتے تھے اور وہ سب کچھ کرتے تھے جن سے وہ دوسروں کو منع کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا نظام رائج کرنے پر زور ڈالتے تھے، لیکن وہ خود مسلمان نہیں، وہ لوگوں کو ہلاک اور قتل کرتے ہیں، یہ کیسے مسلمان ہیں۔ جیل میں رہتے ہوئے احمد کو موت کی سزا سنا دی گئی، لیکن جلاد نے ان پر رحم کھا کر اسے فرار ہونے میں مدد دی۔ اسکا کہنا تھا کہ مجھے نیند بہت کم آتی ہے۔ میں جب پہلی بار ترکی آیا تو مجھے ہر وقت ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ میرا کچھ علاج کیا گیا۔ لیکن مجھے پھر بھی نیند نہیں آتی تھی۔ مجھے ہر وقت خواب آتے تھے۔ آنکھیں بند کرتے ہی میں وہ سب دوبارہ دیکھتا تھا اور پھر ساری رات جاگتا رہتا۔

احمد کو فلمبند کرنے والے آدمی نے دولتِ اسلامیہ چھوڑ دی ہے اور اسے اپنے کئے پر ندامت ہے۔ اس نے بتایا کہ اس فلم کو پراپیگینڈے کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں جن دو اور لوگوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، ان کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ویڈیو فلمبند کرنے والے کا کہنا ہے کہ مجھے ہر وقت اس پر ندامت ہوتی ہے۔ میں دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کے لئے پوری طرح سے قائل نہیں تھا لیکن میں مجبور تھا۔ میں لوگوں پر بہت زیادہ تشدد نہیں کرتا تھا، لیکن مجھے امید ہے کہ جن لوگوں کو میں نے تکلیف دی ہے وہ مجھے معاف کردیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button