مقالہ جات

زاویہ نظر ::: یہ کیسی دوستی ہے؟

::زاویہ نظر::

یہ کیسی دوستی ہے؟

پاکستانی اراکین قومی اسمبلی کی جانب پاکستان کو یمن کے بحران میں غیر جانبدار رکھنے کے متفقہ فیصلے پر عرب ممالک کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری ملت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔جمعہ کو پاکستانی قانون سازوں نے پارلیمان میں کئی دنوں غور وفکرکے بعد ایک انتہائی اہم فیصلہ کیا تھا تاکہ پاکستان یمن بحران میں اپنی افواج کو سعودی عرب اور اس کے حواریوں کی حمایت اور یمن کی جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال نہیں کریگا بلکہ اس پوری صورت حال میں غیر جانبدار رہے گا۔یہ فیصلہ یقیناً پاکستانی قوم اور ملک کے بہتر مستقبل کے لئے کیا گیا تھا مگر افسوس ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایک سخت ردعمل سامنے آیا۔عرب امارات کے خارجہ امور کے ریاستی وزیر ڈاکٹر انور محمود گرگاش نے ایک معروف خلیجی اخبار کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ "پاکستان اور ترکی کے مبہم اور متضاد موقف ایک یقینی ثبوت پیش کرتا ہےکہ لیبیا سے یمن تک عرب سلامتی کی ذمہ داری عرب ممالک کے سوا کسی کی نہیں ہے ۔”

یہ شاہی انداز فکر دراصل عرب بادشاہوں اور انکے عرب حواریوں میں موجود عرب اور عجم کا حقارت پر مبنی تعصب کا ترجمان ہے۔ڈاکٹر انور محمود گرگاش نے اس حد تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان کی قرارداد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایران کی حمایت کر رہا ہے ۔اور اسکے نزدیک تحران خلیجی ممالک سے زیادہ اہم ہے وزیر موصوف نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے غیر واضح موقف کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی ۔چھ قومی عرب تعاون کونسل کے اہم رکن متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس قسم کا غیر ذمہ ادارنہ بلکہ اشتعال انگیز بیان عرب ممالک کی متکبرانہ ذہنیت کا عکاس ہے ۔ڈاکٹر انورمحمود گرگاش اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں خاک اڑتی تھی ۔جب پاکستانی انجیروں ،مزدوروں ،ٹیکنیشن وغیرہ نے ایک صحرا کو جدید ریاستوں میں بدل دیا تھا، عرب حکمرانوں کا غرور پر مبنی یہ بیان پاکستانیوں کے لئے کوئی منعی نہیں رکھتا ہے۔
پاکستانی قانون سازوں نے جس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اس میں سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے دفاع کا عزم بھی ظاہر کیا گیا تھا ۔مگر خلیجی ممالک اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سعودی عرب اور اسکے مقامات مقدسہ کسی صورت میںغیر محفوظ نہیں ہیں ہاں مگر ان ممالک کی ناجائز بادشاہوں کو شدید خطرہ ہے یہ خلیجی حکمران اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ حوثی انقلابیوں سے ان ممالک کی عیاش فوج لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اسی وجہ سے ہاکستان اور ترکی پر شدید دبائو ڈالا جارہا ہےتاکہ ان کی بری افواج کے سہارے یمن کے خلاف زمینی جنگ کا آغاز بھی ہوسکے خلیجی ممالک کی جانب سے یمن پر مسلط جنگ کے کئی اسباب ہیں لیکن اس وقت یہی لگتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک یمن بحران کے ذریعے سے دنیا بھر میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ کے خواہاں نظر آتے ہے عرب ممالک پاکستان کو دوستی کے نام پر اس بحران میں دھکیلنا چاہتے ہیں مگر پاکستان نے جب ان خلیجی ممالک کو جنگ کے بجائے مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کی نصیحت کی تو عرب شہنشاہیت چراغ پا ہوگئ اور پھر ان کی جانب سےاس طرح کے دھمکی آمیز بیانات آنا شروع ہوگئے ۔\
بین الاقومی ماہرین کے مطابق پاکستان کا فیصلہ زمینی حقائق کو مدز نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ۔جو پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ہے یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کو غلام سمجھنے والے خلیجی ممالک کے بادشاہوں کو اس فیصلہ سے بڑی تکلیف ہوئی ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی عرب کو دوسرے ممالک سے فوجی امداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ گزشتہ سال 2014میں سعودی عرب نے 70ارب ڈالر دفاعی سازو سامان کی درآمد پر خرچ کئے تھے ۔اس دفاعی خرچے کے بعد سعودی عرب ،امریکہ ،چین،روس،کے بعد اب چھوتے نمبر پر آگیا ہے ۔یہاں مدد کی ضرورت ہے تو ان یمنی شہریوں کو ہے جو سعودی جارجیت کا شکار ہیں ۔بین الاقومی ذرائع ابلاغ کے مطابق خلیجی ممالک کی جانب سے یمن پر جاری حوائی حملوں میں 700سے زیادہ یمنی شہید ہوچکے ہیں اور انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان جاں بحق افراد میں 200 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بُرے وقتوں میں عرب ممالک کا ساتھ دیا ہے ، چاہے وہ فلسطین کا معاملہ ہو یا سعودی عرب کی اندرونی مُحافظت کا مسئلہ ، پاکستا ن ہمشہ دوست ممالک کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، فلسطین کے معاملہ پر تو پاکستان کا اسٹینڈ انتہا ئی واضح اور اٹل رہاہے یعنی اسرائیل کے قیام 1948 سے لیکر آج تک پاکستان نے دنیا کے نقشے پر اسرائیل کے ناجائز وجودکو تسلیم ہی نہیں کیا ہے، مگر اسکے برعکس خود عرب ممالک اسرائیل کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button