مقالہ جات

آل سعود، تکفیریت اور استعماری گٹھ جوڑ کی کہانی

سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت وہابیت کی سرپرستی اور طاغوت کی نوکری کی بدولت قائم ہے۔ جبکہ تکفیریت اور دہشت گردی وہابیت کا لازمہ ہے، یعنی اگر تکفیریت اور دہشت گردی کو نکال دیا جائے تو وہابیت کی حقیقت اور شناخت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لیے وہابیت یعنی تکفیریت اور دہشت گردی کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ پس جب تک آل سعود تکفیریت اور دہشت گردی کی سرپرستی نہ کرے اس کی حکومت کو خطرہ ہے، اس لیے آل سعود اپنی حکومت کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی جنایت کا مرتکب ہونے کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ اسی طرح طاغوت کی نوکری کا تقاضا ہے کہ وہ دینی، ملی اور قومی غیرت کو الوداع کہہ کر دین دشمنی اور وطن ستیزی کو قبول کیئے رہیں۔ آل سعود کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیشہ آل سعود نے جہاں تکفیریت اور دہشت گردی کو جنم دے کر فروغ دیا، وہاں وقت کے طاغوت کی نوکری کا بھی حق ادا کیا اور دین مقدس اسلام کی پشت میں منافقت اور تفرقے کا چھرا گھونپا ہے۔ اس کی علت وہ دو معاہدے ہیں جو آل سعود نے اپنی حکومت کی بقا کی خاطر کیے ہیں، ایک وہابیت کے بانی محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ اور دوسرا بوڑھے استعمار برطانیہ کے ساتھ۔ اس مختصر سے مقالہ میں ان دو معاہدوں کی تفصیل بیان کریں گے۔

آل سعود اورمحمدبن عبدالوہاب کے درمیان معاھدہ:
محمد ابن عبدالوہاب نے۱۱۶۰ ہجری میں آل سعود سے تعلق رکھنے والے درعیہ کے حاکم ابن سعود کے ساتھ ایک معاھدہ کیا جس میں طے پایا کہ نجد اور اس کے تمام دیہاتی علاقے آل سعود کے زیر تسلط رہیں گے اور محمد بن عبدالوھاب نے حکومتی ٹیکسز سے زیادہ جمع ہونے والے جنگی غنائم، ابن سعود کو دینے کا وعدہ کیا، جس کے مقابلے میں ابن سعود، ابن عبدالوھاب کو اپنے نظریات کو منتشر کرنے کی مکمل آزادی دے گا۔ ابن سعود نے جنگ فی سبیل اللہ کے نام پر محمد بن عبدالوھاب کی بیعت کی اور کہا کہ توحید کی مخالفت کرنیوالے افراد کیخلاف جنگ اور وہ کام جس کا تو نے حکم دے رکھا ہے، پر فتح مندی کی بشارت دیتا ہوں لیکن دو شرائط کی بنیاد پر:
۱۔ اگر ہم تمہاری حمایت و مدد کریں اور خداوند ھمیں کامیابی عطا کرے تو میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم ہمیں ترک نہ کر دو اور ھماری جگہ کسی اور کیساتھ معاھدہ نہ کر لو، محمد ابن عبدالوھاب نے ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا۔
۲۔ اگر ہم درعیہ کے لوگوں پر ٹیکس لاگو کریں تو مجھے خوف ہے کہیں تم انھیں منع نہ کر دو، ابن عبدالوھاب نے کہا کہ ایسا نہیں کروں گا۔

وہابیت کے مفاسد اور حقیقت کے بارے میں جاننے کے لیے محمد ابن عبد الوھاب کی شخصیت سے واقفیت ضروری ہے۔
محمد بن عبدالوھاب ۱۱۱۱ یا ۱۱۱۵ ھ میں پیدا ہوا اور ۱۲۰۷ ھ میں فوت ہوا۔ نوے سال سے زیادہ زندہ رہا۔ عینیہ کے علاقے نجد میں جوان ہوا اور حنبلی علماء سے تعلیم حاصل کی پھر مدینہ چلا گیا۔ احمد امین کہتا ہے کہ وہ چار سال بصرہ میں مقیم رہا، اسی طرح پانچ سال بغداد، ایک سال کردستان، دو سال ھمدان اور اس کے بعد اصفھان میں رہا اور اپنی ایجاد کردہ بدعتیں لوگوں تک پہنچاتا رہا۔ اس کے بھائی شیخ سلیمان نے اس کی ایجاد کردہ بدعتوں اور باطل اعتقادات کے رد میں کتاب تالیف کی جس کا نام ((الصواعق الالھیہ فی الرد علی الوھابیۃ)) رکھا۔ محمد بن عبدالوھاب پیغمبری کا دعوی کرنیوالے افراد جیسے مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی وغیرہ کی تعلیمات کے مطالعہ کا شوق رکھتا تھا۔ چنانچہ اس کے ھم عصر میرزا ابوطالب اصفھانی نے اظھار کیا ہے کہ محمد بن عبدالوھاب نبوت اور اپنے اوپر وحی کے نزول مدعی ہے۔

۱۔ شافعی مذھب کے فقیہ احمد زینی دحلان نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے محمد بن عبدالوھاب سے پوچھا کہ جن اعتقادات کو آپ لائے ہیں اور ان کا اظھار کر رہے ہیں یہ متصل ہیں یا منفصل؟ محمد بن عبدالوھاب نے کہا کہ میرے اساتذہ اور میرے اساتذہ کے اساتذہ چھ سو سال تک سارے مشرک تھے۔ اس شخص نے کہا پس تیرا دین منفصل ہے نہ کہ متصل پس تو نے اسے کس سے لیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ حضرت خضر کی طرح وحی و الھام کے ذریعے۔

2۔ محمد بن عبدالوھاب نے لکھا ہے میں تمھیں اپنی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ خدا کی قسم! اس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ کی طرف سے آنیوالی خبر جو کہ اس کا مجھ پر احسان ہے، سے قبل میں لاالہ الا اللہ کے معانی بھی نہیں جانتا تھا اور دین اسلام سے واقف تک نہ تھا اسی طرح میرے اساتید میں سے کوئی ایک بھی دین اسلام کو نہیں جانتا تھا۔

بعض محققین کا کہنا ہے کہ اگر محمد بن عبدالوھاب ابن تیمیہ کے افکار کو ترویج نہ دیتا تو ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم کی موت بعد یہ افکار ختم ہو جاتے اور زمین پر وہابیت کا وجود نہ ہوتا۔ ابن سعود نے ابن عبدالوھاب کی بیٹی سے اپنے بیٹے عبدالعزیز کے شادی کی ان کے درمیان روابط گہرے ہو گئے اور وہی معاہدہ ابھی تک دونوں خاندانوں کے درمیان جاری و ساری ہے۔ جب محمد بن عبدالوھاب نے اس معاہدے کی بدولت اپنے آپ کو قدرتمند محسوس کیا، تو اپنے انصار و پیروکاروں کو اکٹھا کیا اور انہیں جہاد کا شوق دلایا اور ہمسایہ مسلمان شہروں کو خط لکھا کہ اس کے نظریات کو تسلیم کریں اور اس کی فرمانبرداری کو قبول کر لیں۔ وہ چوپاؤں، نقدی اور اجناس کا دسواں حصہ وصول کرتا تھا اور مخالفت کرنیوالوں پر حملہ کر دیتا تھا بہت سے لوگوں کو قتل، اموال کو غارت اور عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا لیتا تھا اس کا نعرہ یہ تھا کہ وہابیت کو قبول کرو ورنہ مارے جاؤ گے تمھاری عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے۔

یہ وہابیت کا عقیدہ ہے کہ جس سے کوئی بھی مصلحت ان کو باز نہیں رکھ سکتی، انہی مقاصد کے حصول کے لیےمحمد بن عبدالوہاب درعیہ میں ابن سعود کے ساتھ ھم پیمان ہوا۔ وہ ہر طاقت کے ساتھ اپنے اھداف و مقاصد کے حصول کے لیے معاھدہ کرنے کے لیے مکمل طور پر آمادہ تھا۔ تاریخ نجد نامی کتاب میں عبداللہ فیلبی لکھتا ہے کہ ابن عبدالوھاب نے اپنے شاگردوں کے دماغ میں وجوب جہاد کے اصول و فلسفہ کو راسخ کر رکھا تھا ان میں سے اکثر اپنے لیے جھاد کو مقدس ترین تعلیمات میں سے شمار کرتے تھے جو کہ عربوں کی عادت کیساتھ ہم آہنگ تھی۔ ابن عبدالوھاب نے غارت شدہ مال کا پانچواں حصہ مرکزی خزانے کیلئے مخصوص کر رکھا تھا ابن سعود اور ابن عبدالوھاب اپنی ضرورت و خواہش کے مطابق اسے استعمال کرتے تھے، ان عوامل کی بدولت ابن عبدالوھاب کو ایک یا دوسال کے مختصر عرصہ میں حکومتی معاملات میں مداخلت و تسلط حاصل ہو گیا۔

یہ پڑھ کر آپ کو تعجب ہو گا کہ وہابیت نے تلوار کو اپنا شعار بنا رکھا تھا، سعودی حکومت اوائل سے لیکر آج تک اسی اصول پر باقی ہے۔ اھل نجد اس زمانے میں کہ جب ابن عبدالوھاب نے معاھدہ کیا تھا، فقر و ناداری کی زندگی بسر کر رہے تھے، یہاں تک کہ ابن سعود ابن عبدالوھاب کے شاگردوں کو خوراک فراہم کرنے سے قاصر تھا، ہمسایہ مسلمانوں پر ابتدائی حملوں کے بعد حاصل ہونیوالے غنائم وہابیت کے احکام کے مطابق تقسیم ہوتے تھے، پانچواں حصہ ابن سعود کیلئے باقی حصہ لشکر کے لیے مخصوص تھا، جس میں سے تیسرا حصہ پیادہ، دوتہائی سوار فوج کے لیے متعین تھا، جبکہ ہر وہ شخص جو نظام وہابیت میں کسی ذمہ داری پر فائز تھا مال و دولت سے نوازا جاتا تھا۔ ابن عبدالوہاب کے عقیدے کے مطابق مشرکین کو مورد حملہ قرار دیا جاتا تھا ان کے اموال کو لوٹ کر وھابیوں میں تقسیم کر دینا ان کا دستور العمل بن چکا تھا۔

ابن عبدالوھاب نے امیر غیینہ عثمان کو اپنے کارندوں کے ذریعے محراب مسجد میں دہشتگردی کا نشانہ بنا دیا۔ وھابیوں کی منتشر کردہ تاریخ نجد، نامی کتاب جس میں ابن عبدالوھاب کے مکتوبات نقل ہیں، میں آیا ہے کہ عثمان بن معمر مشرک اور کافر تھا جب مسلمانوں کو اس کے کفر کا اطمینان ہو گیا تو انہوں نے نماز جمعہ کے بعد اسے قتل کرنے کی ٹھان لی، اسے ماہ رجب المرجب ۱۱۶۳ہجری محراب مسجد میں قتل کر دیا گیا۔ گویا مسجدوں میں قتل بھی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ عیینہ کی عوام نے سعودیوں کی حکومت اور ابن عبدالوھاب کے خلاف قیام کیا لیکن انھیں جابر اور دہشتگرد حکومت کے ظلم و استبداد کہ جس کو ابن عبدالوھاب کے فتووں اور دین کی پشت پناہی حاصل تھی، کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے عوام پر حملہ کر دیا شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، عمارتیں مسمار کر دیں، کنووں کو مٹی سے بھر دیا، درختوں کو جلا دیا، لوگوں کی ناموس پر تجاوز کیا، حاملہ خواتین کے شکموں کو چاک کیا، بچوں کے ہاتھوں کو کاٹ کر جلا دیا، گھروں میں چوپاؤں سمیت ہر چیز کو لوٹ لیا، مردوں کو قتل کیا ۱۱۶۳ ہجری سے لیکر آج تک عیینہ کھنڈر کا سماں پیش کر رھا ہے۔

حاکم عیینہ پر سعودی قبیلے کی فتح کے باعث اپنی قلمرو کو وسعت دینے کے لیے سعودیوں کے ارادے اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔ محمد بن عبدالوھاب کے حکم جھاد کے انتظار میں تھے، پہلا لشکر سات گروہوں پر مشتمل تھا۔ واضح رہے کہ اس لشکر نے مشرکین، کفار اور رومیوں پر حملہ نہیں کیا، بلکہ صرف صاحبان ایمان کی سرزمین پر حملہ آور ہوئے جو لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتے تھے۔ جب محمد بن عبدالوھاب نے اپنے آپ کو قدرتمند محسوس کیا تو نجد کی مسلمان عوام کو لکھا کہ توحید پرست جماعت میں شامل ہو جائیں کچھ نے اطاعت کر لی اور کچھ نے انکار کر دیا، درعیہ کی عوام کو جنگ کا دستور صادر کیا۔ انھوں نے کئی بار اھل نجد و احساء سے جنگ کی یہاں تک کہ ان میں سے بعض افراد نے اختیار کے ساتھ اور بعض نے اضطرار کی حالت میں اس کی اطاعت کی اس طرح نجد کی تمام ریاست سعودی خاندان کے زیر تسلط آ گئی۔ وہابیوں نے قتل و خونریزی کی قبیح سنت جاری کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ ابن عبدالوھاب چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں نہ عدالت، نہ صلح، نہ رحم، نہ انسانیت، نہ زندگی اور نہ ہی کسی اور چیز کی سوائے اس کے کہ وہابیت کو قبول کرو یا تلوار کی بھینٹ چڑھ جاؤ۔

محمد بن عبدالوھاب اس بدعت کی ترویج، قتل و غارت اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے خون کا ذمہ دار ہے۔ اس بارے میں اسکے بھائی شیخ سلیمان، کا بیان کافی ہے جس نے کہا کہ تم معمولی معمولی باتوں پر حتیٰ وہم و گمان کی بنیاد پر کفر کا فتوی صادر کرتے ہو، اسلام کی واضح و صریح تعلیمات کا انکار کرتے ہو بلکہ وہ افراد جو تمھارے تکفیر کے فتووں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تم ان کو بھی کافر قرار دیتے ہو۔ شیخ سلیمان بن عبدالوھاب الصواعق الالھیۃ میں لکھتا ہے کہ آج لوگ ایک ایسے شخص (یعنی محمد بن عبد الوھاب ) کے جال میں پھنس چکے ہیں کہ جو قرآن و سنت سے سوء استفادہ کرتا ہے اپنے مخالف کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، اگر اسے یہ کہا جائے کہ اپنے نظریات و افکار کو اہل علم و دانش کے سامنے پیش کرے تو انکار کر دیتا ہے بلکہ لوگوں پر اپنی پیروی کو لازم قرار دیتا ہے اور جو کوئی اسکی مخالفت کرے اسے کافر قرار دیتا ہے اس میں مجتھدین والی کوئی شرط نہیں پائی جاتی۔ خدا کی قسم! خدا کی قسم! مجتھدین کے خصائل کے دسویں حصے سے بھی عاری ہے اس کے افکار زیادہ تر نادان افراد میں رائج ہیں۔ تمام امت اسلامی یک زبان ہو کر فریاد کر رہی ہے لیکن وہ ان کو جاھل و کافر قرار دیتے ہوئے جواب دینے سے گریزاں ہے۔ بار الھا اس گمراہ کی ھدایت کر اور اسے حق کیطرف پلٹا دے۔
مزید برآں وہ کہتا ہے کہ محمد بن عبدالوھاب جن امور کی بنا پر لوگوں کو کافر قرار دیتا ہے اور انھیں قتل کر دیتا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ احمد بن حنبل کے زمانے سے امت کے علماء، رہبران اور عوام کافر اور مرتد ہیں، جو کچھ تم کہتے ہو اس پر اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔

زینی دحلان کہتا ہے کہ ابن عبدالوھاب نے روز جمعہ مسجد درعیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ((جو بھی پیغمبر اکرمؐ سے توسل کرے گا کفر کا مرتکب ہو گا۔ اس کے بھائی شیخ سلیمان نے اس سے کہا اے محمد! اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟ اس نے جواب دیا پانچ اس کے بھائی نے کہا تم اسلام کے چھ ارکان قرار دیتے ہو جن میں سے تیرے نزدیک چھٹا یہ ہے کہ اگر کوئی تمھاری پیروی نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، گویا تیرے نزدیک وہابیت اسلام کا چھٹا رکن ہے۔ ایک شخص نے ابن عبدالوھاب سے پوچھا کہ خداوند متعال ماہ مبارک رمضان کی ہر رات کتنے آدمیوں کو رھا کرتا ہے، اس نے جواب دیا ہر رات ایک لاکھ اور آخری رات پورے مہینے میں آزاد کردہ افراد کی تعداد کے برابر آزاد کرتا ہے، اس مرد نے اس سے کہا کہ تیرے پیروکاروں کی تعداد ان افراد کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں ہے، پس وہ مسلمان جن کو خداوند عالم آزاد کرتا ہے کون ہیں؟ حالانکہ تو صرف خود کو اور اپنے پیروکاروں کو مسلمان سمجھتا ہے، فبھت الذی کفر (وحشت زدہ ہو گیا وہ جس نے کفر کیا )۔ جمیل صدقی کہتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نے اپنے شہر میں رہنے والے اپنے پیروکاروں کو انصار اور باہر زندگی بسر کرنے والے پیروکاروں کو مھاجرین کا لقب دے رکھا تھا اور وہ لوگ جو اس کے حلقہ اطاعت میں آنے سے پہلے مناسک حج بجا لا چکے تھے، ان کو دوبارہ حج کرنے کا کہتا تھا چونکہ تم اس زمانے میں مشرک تھے اور تمھارا حج قبول نہیں اور وہ شخص جو دین ابن عبدالوھاب قبول کرنا چاہتا تھا اسے کہتا تھا کہ پہلے گواھی دو کہ تم اس سے پہلے کافر تھے، تمھارے والدین کفر کی حالت میں اس دنیا سے گئے اور فلاں فلاں گذشتہ علماء کا نام لیکر کہتا تھا کہ ان کے بارے میں بھی گواھی دو کہ وہ کافر تھے۔ اگر لوگ اسطرح گواھی دے دیتے تو ان کے دین کو قبول کر لیتا تھا۔ چھ صدیوں سے لے کر اپنے زمانے تک کی امت کو صریحا کافر کہتا تھا اور جو بھی اس کی پیروی نہیں کرتا تھا اس کو کافر قرار دیتا تھا، مسلمانوں کے متقی ترین افراد کو مشرک جانتا تھا اور ان کی جان و مال کو مباح قرار دیتا تھا صرف اپنے پیروکاروں کو مومن سمجھتا تھا۔

جو کوئی بھی پیغمبر اکرمؐ پر صلوات بھیجتا، اسے سخت سزائیں دیتا، یہاں تک کہ ایک نابینا موذن مرد کو اذان کے بعد درود پڑھنے کی وجہ سے قتل کر دیا۔ پیغمبر اکرمؐ پر درود کے بارے میں لکھی گئی، بہت سی کتابوں کو جلا دیا اسی طرح فقہ، تفسیر اور حدیث کی بہت سی ان کتابوں کو بھی جو اس کے باطل نظریات سے ٹکراتی تھیں جلا دیا۔ جب ابن عبدالوھاب نے لوگوں کو پیغمبر اکرمؐ کی قبر مبارک کی زیارت سےمنع کیا تو اھل احساء پیغمبر اکرمؐ کی قبر کی زیارت سے مشرف ہوئے اور جب اس کو یہ خبر ملی تو ان کی واپسی پر جب وہ شہر درعیہ میں وارد ہوے اس نے حکم دیا کہ ان کی داڑھی مونڈ دی جاے۔ اس کے بعد درعیہ سے احساء تک توھین آمیز انداز میں لایا جائے کہ ایک سواری پر دو افراد کو اس طرح سوار کرو کہ ایک کا منہ آگے اور دوسرے کا پیچھے کیطرف ہو۔ ابن عبدالوھاب ابن تیمیہ کے نظریات و افکار کو جاری و ساری رکھنے والا ہے، جبکہ ابن تیمیہ اپنے نظریات کو نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا کیوں؟ ابن تیمیہ کے برعکس ابن عبدالوھاب کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے اپنے افکار و نظریات کو کھلے عام بیان کیا اور لوگوں نے اس کو دلیل و برھان کے ساتھ ساکت کر دیا، جبکہ ابن عبدالوھاب نے اپنے اعتقادات کو جہلاء کی محافل میں بیان کیا جو لوگ اسلام سے بالکل ناواقف اور اکثر دیہاتی، اور صحرا نشین ہوتے تھے۔

جمیل صدقی کہتا ہے کہ جب ابن عبدالوھاب کو اس بات کا علم ہو گیا کہ سرزمین نجد کے لوگ تہذیب و تمدن سے دور سادہ لوح اور فکری حوالے سے مستضعف ہیں، جہالت و نادانی کے بادل ان پر مسلط ہیں، تو اس نے محسوس کیا کہ ان کے دل فساد کی فصل کی کاشت کیلئے آمادہ ہیں وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلاء تھا اور ابتداء ہی سے اس کہ یہ تمنا تھی کہ اس راستے سے وہ اقتدار و حکومت کو حاصل کرے اپنی آرزوں کو پانے کے لیے اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ مجدد اور مجتھددین ہونے کا دعوی کرے اس بات نے اس کو اکسایا کہ وہ تمام مذاھب اسلامی کو کافر ومشرک قرار دے۔ جو بھی وہابیت کی تالیفات و مکتوبات کا دقت سے مطالعہ کرے اس کیلئے واضح و روشن ہو جاتا ہے کہ وہابیت نے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے اور ان کے جان و مال کو مباح سمجھا ہے۔ اس مقصد اور ہدف کے حصول کے لیے وہابیت کو آل سعود کی حکومتی سرپرستی کی ضرورت تھی کہ جس کے ذریعے وہ کھل کر دین مقدس اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر سکے اور آل سعود کو حکومت کی بقا کے لیے دینی جھوٹے تقدس کی احتیاج تھی اور آج بھی آل سعود خادمین حرمین شریفین کے تقدس کے سائے میں اپنے کرتوتوں کو چھپائے ہوئے عالم اسلام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کبھی بحرین کے مظلوم مسلمان اس کی سفاکیت کا نشانہ بن جاتے ہیں اور کبھی یمن کے غیور مسلمان ۔حالانکہ حرمین شریفین کی ہتک حرمت کا خیال ہوتا تو جہاں ایک مچھر کا مارنا حرام ہے ہزاروں حاجیوں کا خون بہا کر توہین حرمین کے مرتکب نہ ہوتے اورامریکہ کی عزت کو بچانے کی خاطر حرمین کی اہانت نہ کی جاتی۔

آپ کی توجہ ۶ ذی الحج ۱۴۰۷ ہجری کے سیاہ جمعہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جب فھد کے حکم پر ہزاروں حاجیوں کو حرم میں قتل کر دیا گیا ان کا اس کے علاوہ کوئی جرم نہیں تھا کہ مشرکین سے برائت اور مسلمانوں کو وحدت کی طرف دعوت دینے کے لیے اجتماع کیا تھا خدا کو پکار رہے تھے اور امن کے شہرمیں مردہ باد امریکہ، مردہ اسرائیل اور اے مسلمانو متحد ہو جاؤ کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ ایک بھاری قیمت تھی کہ جو مسلمانوں نے اس دن شیطان بزرگ امریکہ اور غاصب اسرائیل سے برائت کے بدلے میں ادا کی امریکہ اور اسرائیل کے نمک خوار وہابیوں نے انہی کی نمائندگی کرتے ہوئے ماہ حرام میں انتہائی بے رحمی کے ساتھ مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطان کر دیا۔

آل سعود کا برطانیہ کے ساتھ معاھدہ:
امت مسلمہ کی ذلت اور خواری جبکہ آل سعود کی حکومت کے بقا کے لیے بوڑھے استعمار کے ساتھ ایک شرمناک معاہدہ طے پایا۔ ۱۳۲۸ ھجری میں عبدالعزیز بن سعود نے کویت میں انگریزوں کے نمائندے ویلیم سے ملاقات کی تیسری ملاقات کے بعد عبدالعزیز بن سعود نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے برطانیہ کو تجویز پیش کی کہ نجد اور احساء کو دولت عثمانی سے چھیننے کا بہترین موقع یہی ہے، اس طرح ایک ذلیلانہ معاہدہ طے پایا کہ انگلستان احساء اور نجد میں حاکم ریاض کے موقف کی حمایت کرے گا اور اسی طرح دولت عثمانی کی طرف سے بحری اور بری ممکنہ حملوں کی صورت میں اس کی دوسری حامی حکومتوں کے ساتھ مل کر عبدالعزیز کی مدد کرے گا اور منطقے میں آل سعود کی حکومت کے بقا اور دوام کے لیے کوشاں رہے گا۔ عبدالعزیز نے بھی نوکر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ برطانوی حکومت کے ذمہ داروں کے ساتھ مشورت کے بغیر کسی بھی حکومت سے رابطہ نہیں کرے گا۔ ابن سعود اس بات کا پابند ہے کہ کسی بھی ریاست اور حکومت کے ساتھ معاھدہ، رابطہ اور تعلق برقرار نہیں کرے گا۔ ابن سعود، امیر نجد حق نہیں رکھتا کہ حکومت برطانیہ کی اجازت کے بغیر سرزمین نجد کے کسی حصہ کے بارے میں دوسروں کے ساتھ معاھدہ کرے، اسے اجارہ یا رھن و گروی کے طور پر رکھے، کسی اور استعمال کیلئے دے، کسی اور حکومت کو یا اس کے ماتحت کسی فرد کو ہدیہ کے طور پر عطا کرے۔
ابن سعود اپنے باپ کی طرح اس بات کا پابند ہوگا کہ سرزمین کویت، بحرین، کویت، قطر، عمان اور ان کے ساحلی علاقوں کے شیوخ کی زمینوں میں اور اسی طرح برطانیہ کے حمایت یافتہ اور اس کے ساتھ ہم پیمان شیوخ کی زمینوں میں ہر قسم کی مداخلت اور تجاوز سے اجتناب کرے گا۔

یہ معاھدہ (معاھدہ انگلستان) نجد اور نجد کے ملحقہ علاقوں پر لاگو ہوا اور یوں انگلستان کے اثر ورسوخ کے جال کا حصہ بن گیا، انگلستان کی خواھش یہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ معاھدہ مشرق وسطی کے ایک بڑے حصے بلکہ تمام جزیرۃالعرب پر لاگو ہو۔ ۱۳۶۲ ھ میں عبدالعزیز نے مکہ میں نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران کہا،، یہاں پر ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو بھی مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کرتا گویا اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا، پھر حکومت برطانیہ کی تعریف کرنا شروع کر دی کہ انہوں نے حجاج کے سفر کو آسان بنانے کیلئے کشتی فراہم کی، انہوں نے ہمارے ملک کی مالی مدد کی ہے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء فراہم کیں جن کی ہمیں اشد ضرورت تھی وغیرہ وغیرہ۔ مرحوم علامہ مغنیہ کہتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا اس بات سے آگاہ ہے کہ برطانیہ اور ہر استعماری حکومت کیلئے یہ محال ہے کہ وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کیلیے کوئی کام انجام دے، اگر کسی ملک یا ملت کیلیے انہوں نے کوئی فلاحی کام انجام دیا ہے تو اس کے پس پردہ اس ملک کی منڈی اور دوسرے وسائل پر تسلط کا قصد ہوتا ہے اس لیے کہ استعمار کا کام ملتوں کا خون چوسنا ہے۔

مقام حیرت ہے کہ یہ حقیقت اور واقعیت ملک عبدالعزیز پر پنھان رہے اور یہ کہے (وہ اول وقت میں نماز پڑھنے والا ایک وھابی ہے ) جو لوگوں (مراد برطانیہ ہے) کا شکریہ ادا نہیں کرتا گویا اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا، جبکہ وہابیت پیغمبر اکرمؐ اور ہر ولی کی قبر کے نزدیک نماز کے بطلان کے قائل ہیں چونکہ ان کے عقیدے کے مطابق اللہ کی عبادت اس صاحب قبر کی پرستش سے مخلوط ہو جاتی ہے، پس ملک عبدالعزیز نے کس طرح شکر پروردگار کو انگلستان کے تشکر پر موقوف قرار دیا ہے اور یوں کہا ہے کہ اگر پہلے اس کو انجام نہیں دیں گے تو دوسرا قبول نہیں ہو گا برطانیہ کے کمزور ہونے کے بعد اس کی جگہ امریکہ نے لے لی۔ اس دوران بین الاقوامی تبدیلیاں اور تحولات رونما ہوئے جو آل سعود کے حق میں تھے اور امت مسلمہ کے لیے انتہائی نقصان دہ، چونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دولت عثمانی کے تسلیم ہونے اور جرمنی کی تقسیم کے بعد جزیرۃ العرب میں ترکی کا کردار ختم ہو گیا اور صرف برطانیہ اس خطے کے امور پر مسلط تھا۔ تو برطانیہ کے ایما پر ۱۳۴۳ ھجری قمری میں آل سعود کے سلطان عبدالعزیز نے حجاز پر حملہ کیا اور طائف کا محاصرہ کر لیا، پھر زبردستی شہر میں داخل ہو گئے اور تقریبا دوہزار افراد کو قتل کر دیا، قتل ہونیوالوں میں علماء اور صلحاء بھی شامل تھے، حسب معمول لوٹ مار کی اور ایسے قبیح افعال کے مرتکب ہوئے کہ سن کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ طائف کی جنگ کے بعد عبدالعزیز کیلئے حجاز کا راستہ کھل گیا اور برطانیہ چاہ رہا تھا کہ مکہ پر حاکم ملک شریف حسین اور اس کے بیٹوں سے چھٹکارہ پائے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین راستہ عربوں کا ایک دوسرے سے جنگ کرنا تھا۔ برطانیہ نے ملک شریف حسین اور ہاشمی خاندان پر وہابیت کو برسر اقتدار لانے کے لیے دباؤ کا ہر حربہ استعمال کیا جیسے مالی امداد کا سلسلہ منقطع کر دینا، یہاں تک کہ ہاشمی خاندان فوجی افسروں اور سپاھیوں کی تنخواہ دینے سے معذور ہو گیا ملک شریف حسین کی حالت اس حد تک ابتر ہوگئی کہ حجاز کے بزرگان مثلا اشراف مکہ نے علماء دین اور جدہ کے بڑے بڑے تجار نے شریف حسین کو ابن سعود کی خوشنودی کی خاطر معذول کر دیا۔ اس طرح وھابی بغیر جنگ کے مکہ میں داخل ہوئے جب عبدالعزیز مکہ میں داخل ہوا تو مخصوص فوجی دستوں نے اس کا استقبال کیا اس نے علماء کے ساتھ میٹنگ کی اور انھیں وھابی افکار کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔

وہابیت کو خوش کرنے کے لیے ابن عبدالعزیز نے مکہ، جدہ اور مدینہ سے اسلامی آثار کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ مکہ میں موجود حضرت عبدالمطلبؑ، ابوطالبؑ، ام المومنین خدیجہؑ کے علاوہ مقام ولادت رسول اکرمؐ اور حضرت زہراء علیھاالسلام کے روضہ مبارک کے گنبدوں کو مسمار کر دیا، بلکہ تمام زیارت گاہوں، مقدس مقامات اور گنبدوں کو ڈھا دیا۔ جب مدینہ کا محاصرہ کیا تو مسجد حضرت حمزہؑ اور مدینہ سے باہر ان کی زیارت گاہ کو گرا دیا۔ علی وردی کہتا ہے بقیع مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کے زمانے اور اس کے بعد قبرستان تھا کہ جہاں حضرت عباسؑ، عثمان، امہات المومنین بہت سے صحابہ اور تابعین کے علاوہ آئمہ اہل بیتؑ میں چار امام (امام حسنؑ، امام زین العابدینؑ،امام باقرؑ اور امام صادقؑ) مدفون تھے کہ شیعوں نے ان چار آئمہ کی قبور پر ایران اور عراق میں موجود باقی معروف آئمہ کی طرح خوبصورت ضریحیں تعمیر کر رکھی تھیں، جنہیں وھابیوں نے مسمار کر دیا۔ لیکن صاحبان عقل و خرد کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اسی سعودی عرب میں یہودی باقیات قلعہ خیبر آج بھی مغربی اور یہودی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بڑی آب و تاب سے موجود ہے جو آل سعود اور وہابیت کی آل یہود کے ساتھ دوستی اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج بھی شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے ناجائز بیٹے کی خوشنودی کی خاطر آل سعود خادمین حرمین شریفین کی ڈھال کو استعمال کرتے ہوئے شام، عراق، بحرین اور یمن کے مظلوم مسلمانوں کو بے دریغ قتل کر رہا ہے اور خصوصا اہل یمن کے غیور مسلمان ان کی سفاکی کا نشانہ بن رہے ہیں اور مشرق وسطی میں طاغوت کے مفادات کے تحفظ کے لیے فرزندان توحید کے خون کا پیاسا ہو چکا ہے۔ اب عالم اسلام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آل سعود کے چہرے پر موجود منافقت کے نقاب کو نوچ کر دنیا کے سامنے اس کی حقیقت کو عیاں کرے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button