مقالہ جات

نبی(ص) کی بیٹی کیلئے درد دل

محسنین اور قائدین کا احترام، اور ان کی اولاد کا احترم کرنا اخلاق انسان بلکہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے۔ اگر محسن کا احسان مادی اور دنیاوی ہو، اسی طرح قائد کی قیادت صرف دنیاوی ہو، تو وہ محترم ہوتے ہیں لیکن ان کا احترام اتنا نھیں ہوتا، جتنا ایک روحانی اور معنوی محسن کا احترام کیا جاتا ہے۔ روحانی محسنین میں سے ھر مسلمان کے محسن اول حضرت محمد (ص) ہیں، جن کے احترام کے وجوب پر سورہ حجرات کی آیات اور کچھ دوسری آیات قرآنی شاہد ہیں، اور ان کی اولاد کے احترام اور محبت کے وجوب پر سورہ شوری کی آیت ۲۳ 

قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا الموددۃ فی القربی
روشن و واضع دلیل ہے۔ اس قانون اخلاقی اور فطرتی کے تقاضہ اور فرمان قرآنی کو مدنظر رکھتے ہوئے، پیامبر اسلام (ص) اور ان کی اولاد کا احترام کرنا اور ان کو اذیت نہ کرنا ھر مسلمان کا اخلاقی اور شرعی فریضہ ہے، لیکن جب تاریخ اسلام کے ان تاریک اور سیاہ اوراق کی سیاہ سطروں پر نظر پڑتی ہے، کہ جن پر پیامبر اسلام (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر اذیت اور بے احترامی کے واقعات ثبت ہیں، تو ایک مسلمان ہونے کے ناطے دل خون کے آنسو روتا ہے۔

اس تحریر کا مقصد کسی پر تنقید نھیں ہے، بلکہ تاریخ اسلام کے اس دردناک پہلو کے سبب، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے دل کے درد کو بیان کرنا اور مسلمانوں کو انکے اس اخلاقی فریضہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ وہ فاطمہ زہرا (ع) کہ جس کی فضیلت پر بہت سی آیات اور روایات پیامبر اسلام (ص) موجود ہیں، اور اسی طرح ان کے احترام اور اذیت نہ کرنے کے بارے میں بھی شیعہ سنی کتب میں متعدد روایات موجود ہیں، جیسا کہ ایک مشہور روایت ہے کہ پیامبر اسلام (ص) نے فرمایا:
« فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِى »
فاطمہ میرا حصہ ہے (مجھ سے ھے) جس نے فاطمہ کو ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
صحیح بخاری،ج۱۳،ص۵۷ ۔
جس نے پیامبر اسلام (ص) کو ناراض کیا، اس کے بارے میں خدائے متعال قراان میں فرماتا ھے:
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَة وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِينا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ سورہ احزاب ۵۷۔
ایک اور مقام پر خدائے متعال فرماتا ھے:
وَ مَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوى
اور جس پر میرا غضب نازل ہوا، بتحقیق وہ ہلاک ہو گیا۔ سورہ طہ ۸۱۔
ایک جگہ پر خدا صرف ایک شخص نہیں، بلکہ جس قوم پر خدا کا غضب نازل ہو اسکے بارے میں فرماتا ھے:
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ
اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ رکھو جس پر اللہ غضبناک ہوا ہے۔ سورہ ممتحنہ ۱۳۔

اسی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے شیعہ و سنی کتب میں موجود ہے کہ اپنے بابا کے دنیا سے جانے کے بعد 75، 95 دن یا 6 ماہ زندہ رہیں، لیکن ان کی زندگی کے یہ آخری ایام اگر چشم انصاف سے مطالعہ کیا جائے تو واضع ھو جائے گا کہ تکالیف، بے سکونی اور کچھ لوگوں سے ناراضگی میں گزری ہے۔ ممکن ھے اس بات کے ذکر کے بعد، پڑھنے والوں کے ذہن مین سوال پیدا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ (ص) کی بیٹی پر ظلم کیا گیا ہو؟، کیا اس وقت مسلمان موجود نہ تھے، جو اذیت کرنے والوں کا ہاتھ پکڑتے؟ آخر وہ کون ہیں،؟ جس نے بی بی کو ناراض کیا۔؟ کیا ان کے نام کتب میں موجود ہیں؟ اگر اذیت ھوئی، تو کس وجہ سے؟ یہ اذیتیں کس نوعیت کی تھیں؟ کیا کسی نے بدلہ بھی لیا؟ ان اذیتوں کا بی بی کی زندگی پر کیا اثر پڑا؟ کیا بی بی ان تکالیف کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ھو گئیں؟ کیا بی بی نے اذیت کرنے والوں کو معاف کر دیا؟

مصائب کی انتہا یہ ہے کہ اس بی بی کا جنازہ ان کی وصیت کے مطابق رات کو اٹھایا گیا، کیا وجہ ھوئی نبی (ص) کی بیٹی کے جنازے کے ساتھ مدینہ کے تمام مسلمان نہ جا سکے؟ کیوں رات کو دفن کیا گیا؟ کیوں قبر کو مخفی رکھا گا؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب روایی اور تاریخی کتب میں موجود ہے۔ اس تحریر میں ان تمام سوالوں کا جواب دینا مشکل اور نامناسب ہے، فقط چند بنیادی سوالوں کا مختصر جواب اور وہ بھی وحدت مسلمین کو مد نظر رکھتے، حساس مقامات پر عبارت کو حذف کرنے اور تفصیلی معلومات کے لئے ان کتب کے مطالعہ کی دعودت دیتے ہوئے، مزید تکلیف قارئین کے دوش پر ڈالیں گے۔

فوجدت فاطمة على ۔۔۔۔ في ذلك فهجرته فلم تكلمه حتى توفيت وعاشت بعد النبي صلى الله عليه و سلم ستة أشهر فلما توفيت دفنها زوجها علي ليلا ولم يؤذن بها ۔۔۔۔۔وصلى عليها
اس بات پر فاطمہ (ع) اس ۔۔۔ پر ناراض ھو گئی اور اس کو چھوڑ دیا، فاطمہ (ع) نبی (ص) کے بعد چھ ماہ زندہ رھی، جب وفات پائی تو اس کے شوہر علی (ع) نے ان کو رات کو دفن کیا اور اس شخص کو جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ دی، اور خود فاطمہ (ع) پر نماز پڑھی۔ صحیح بخاری، ج۴، ص۱۵۴۹۔ صحیح مسلم،ج۳،ص۱۳۸۰۔
اس حدیث سے بہت سے سوالوں کا جواب مل سکتا ھے۔
پہلا، اصل نارضگی بی بی،
دوسرا، جس پر ناراض ھوئی، اس کا نام
تیسرا، اتنی ناراض تھیں کہ حضرت علی (ع) نے اس شخص کو بی بی کے جنازہ کے ساتھ شامل نھیں پونے دیا۔
چوتھا، بی بی کو حضرت علی (ع) نے رات کو دفن کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بی بی کا جنازہ مسلمانوں کے ہجوم میں اٹھتا۔
پانچواں، بی بی نے اس شخص کو معاف نھیں کیا، کیونکہ حضرت علی (ع) کا اس شخص کو جنازہ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دینا اس بات کی واضع دلیل ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button