مقالہ جات

میرا بیٹا عباس بڑا حیادار انسان تھا، گھر میں رشتہ دار خواتین آتیں تو وہ گھر سے فوراً نکل جاتا، محب علی

محب علی جامع مسجد امامیہ حیات آباد پشاور کے حادثے میں داد شجاعت حاصل کرنے والے سپوت بیٹے عباس علی کے والد محترم ہیں۔ جن کا بنیادی تعلق پیواڑ سے ہے، تاہم انکے آباء و اجداد پیواڑ سے افغانستان منتقل ہوگئے تھے، کافی عرصہ افغانستان کے علاقے خوشی میں گزارا، یوں انکی پیدائش بھی خوشی ہی میں ہوئی۔ تقریباً تیس سال قبل افغانستان سے دوبارہ کرم آگئے، تو پیواڑ کی بجائے شاخ دولت خیل میں آباد ہوگئے، اور تاحال وہیں پر آباد ہیں، جبکہ خود محب علی گذشتہ کئی سال سے ایرانی قونصلیٹ میں ملازم ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پشاور میں مقیم ہیں۔ بیٹے کے جنازے کے ساتھ پشاور سے پاراچنار آئے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پشاور حادثے کی تفصیلات نیز اپنے بیٹے کی جراتوں کا آنکھوں دیکھا حال معلوم کرنے کی غرض سے ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ

نمائندہ: آپ کے شہید بیٹے کی عمر کتنی تھی۔؟
محب علی: میرے بیٹے کی عمر اس وقت چوبیس سال تھی۔

نمائندہ: عباس علی کی ازدواجی حیثیت کیا تھی، اور یہ کہ اگر شادی تھی تو کتنے بچے تھے۔؟
محب علی: عباس علی کی تین چار سال قبل شادی ہوئی تھی، لیکن تاحال کوئی بچہ نہیں۔

نمائندہ: عباس علی کا اس وقت شغل کیا تھا، تعلیم حاصل کر رہے تھے یا کوئی کاروبار کر رہے تھے۔؟
محب علی: تین چار سال قبل ایف ایس سی تک تعلیم کرنے کے بعد علاقے کی صورتحال کے پیش نظر مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے، لہذا اسکے چچا یعنی میرے بھائی نے ویزے بندوبست کرکے اسے دوبئی میں سیٹ کرایا تھا اور وہ تین ماہ قبل ہی دوبئی سے واپس آیا تھا اور میرے ساتھ ہی پشاور میں مقیم تھا، کیونکہ ہمارے بھائی اور دوسرے بیٹے بھی عموماً شاخ دولت خیل یعنی آبائی گاوں میں رہتے ہیں۔

نمائندہ: آپ لوگ معمولاً یعنی اکثر اوقات جمعہ پڑھنے امامیہ مسجد حیات آباد ہی جایا کرتے تھے یا اس دن اتفاقاً وہاں جانا ہوا؟
محب علی: نماز جمعہ میں معمولاً باجماعت ہی پڑھتا رہا ہوں، اور جمعہ پڑھنے میں عموماً حیات آباد ہی جایا کرتا تھا اور میرا بیٹا بھی عموماً میرے ساتھ ہی رہتا، جبکہ کبھی کبھی جامعۃ الشہید عارف الحسینی یا قصہ خوانی بازار میں بھی نماز جمعہ کی غرض سے جاتے تھے۔

نمائندہ: واقعہ کس ٹائم ہوا، یعنی نماز سے پہلے ہوا، دو نمازوں کے درمیان یا ظہرین کے بعد۔؟
محب علی: نماز جمعہ بالکل تسلی سے پڑھی گئی، نماز جمعہ کے بعد نوافل ہوگئے اور چندہ بھی جمع ہوگیا۔ اسکے بعد عصر کی نماز شروع ہوگئی۔ میرا بیٹا مجھ سے آگے جبکہ میں پچھلی صف میں کھڑا تھا۔ نماز عصر کی آخری رکعت تھی، کہ سیٹی کی آواز آگئی۔ یعنی وسل کی نہیں بلکہ منہ سے کسی نے سیٹی بجا دی۔ اسکے چند ہی سیکنڈ بعد باہر سے دھماکے کی آواز آئی۔ جس کیوجہ سے شیشے ٹوٹ گئے اور بعض لوگ زمین پر گر پڑے۔ لوگ دوبارہ اٹھ گئے، اور نعرے لگانے لگے۔ نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت، نعرہ حیدری اور نعرہ صلوات، یاحسین، لبیک یاحسین وغیرہ جیسے نعرے لگانے لگے۔ اسی دوران کلاشنکوفوں کی فائرنگ شروع ہوگئی اور ایک اور دھماکہ بھی ہوگیا۔ اس دھماکے کی وجہ سے یا پتہ نہیں فائرنگ سے بائیں سائڈ (جنوب کی طرف) موجود ایک ادھیڑ عمر شخص زخمی ہوگیا، وہ زخموں کی شدت سے چلا رہا تھا کہ مجھے ہسپتال لے جاو۔

نمائندہ : آپ باپ بیٹا مسجد کے بالکل درمیان میں تھے یا دائیں بائیں۔؟
محب علی: ہم دونوں محراب کے پیچھے بالکل وسط میں تھے۔ جیسا کہ بتایا کہ جب دوسرا دھماکہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ عباس علی کی پیشانی پر زخم آئے ہیں اور اسکے چہرے سے خون بہہ رہا ہے، چونکہ اولاد ہے، میں پریشان ہوکر آگے بڑھا، اور خون پونچھنے لگا۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، بابا! مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ بے فکر رہیں۔ اسی دوران کسی نے کہا کہ ایک سائڈ کو ہوجائیں۔ کینسر ہسپتال کے لئے نئی بننے والی عمارت سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ چنانچہ سب مسجد کے دائیں سائڈ (ہال کے شمال کی جانب) چلے گئے۔ کسی نے آواز لگائی کہ سب لیٹ جاو، میں نے بھی ایک دو صدائیں لگائیں، لیٹ جائیں، سب لیٹ جائیں، تاکہ نقصان کم ہو، چنانچہ بغیر کسی افراتفری کے سب لیٹ گئے۔

نمائندہ: اسوقت تک باہر فائرنگ ہو رہی تھی، اور اندر کسی نے گھسنے کی کوشش نہیں کی تھی۔؟
محب علی: جی ہاں، باہر کینسر ہسپتال کی زیر تعمیر بلڈنگ سے فائرنگ ہو رہی تھی، اور باہر مسجد کے دالان میں بھی فائرنگ شروع ہوگئی۔ اسکے فوراً بعد دو مسلح افراد اندر آگھسے اور سیمی آٹو میٹک یعنی ایک ایک کرکے گولیاں چلانے لگے، کچھ لوگ شہید اور زخمی ہوگئے، ہم زمیں پر لیٹے ہوئے تھے۔ ایک شخص ناد علی کا ورد کر رہا تھا جبکہ میں سورہ الناس کی تلاوت کر رہا تھا۔ تاہم وہ دونوں بہت جلد ہی مسجد کے ہال سے نکل گئے۔ انکے نکلتے ہی ایک اور مسلح شخص مسجد کے بائیں سائڈ (جنوبی سائڈ) پر موجود دروازے سے داخل ہوا اور فائرنگ شروع کردی، پہلے دائیں طرف فائرنگ کی پھر بائیں طرف فائرنگ کی۔ میرے بیٹے کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا، کہ اس دوران اس نے زور سے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑا لیا اور مسلح شخص، جس نے خودکش جیکٹ بھی پہن رکھی تھی، اسکے پیچھے سے آکر اسکو دبوچ کر زمین پر گرا دیا۔ اس دوران وسطی دروازے سے بھی ایک شخص اندر داخل ہوا اور دھماکہ کر دیا۔ جس سے جانی نقصان ہوا۔

نمائندہ: آپکو کچھ پتہ ہے کہ عباس علی نے خودکش کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کر دیا یا کسی اور وجہ سے دونوں کی موت واقع ہوئی۔؟
محب علی:خودکش کا تو اللہ ہی کو علم ہے، اتنا پتہ ہے کہ اسکے پیچھے ایک اور مسلح شخص اندر داخل ہوا اور اس نے فائرنگ کی۔ عباس علی شاید اس شخص کی فائرنگ سے شہید ہوا، یا یہ بھی امکان ہے کہ چونکہ وہ کھڑے ہوکر خودکش کے ساتھ کشتی میں لگا ہوا تھا، شاید دوسرے خودکش حملہ آور کے دھماکے سے عباس علی جام شہادت نوش کرگیا ہو، نیز شاید وہ پہلا خودکش بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوگیا ہو۔ تاہم جب حالات سدھر گئے تو دیکھا کہ عباس علی کا ہاتھ خودکش حملہ آور کے گلے میں ہے۔ باقی خدا ہی کو علم ہے کہ خودکش کی ہلاکت کا باعث کیا چیز تھی۔

نمائندہ: خودکش حملہ آور کے پاس بندوق تھی؟ اگر تھی، تو وہ بندوق کہاں گئی؟
محب علی: جی ہاں، وہ خودکش حملہ آور جیسے ہی مسجد کے اندر گھسا، تو اس نے فائرنگ شروع کردی، فائرنگ کے دوران عباس علی نے اسے پیچھے سے دبوچ لیا، اور اسکی ہلاکت کے بعد مسجد میں موجود افراد میں سے کسی نے اسکی بندوق اٹھا لی۔

نمائندہ: مسجد کے اندر اور باہر کل کتنے دھماکے ہوئے؟
محب علی: کل دو خودکش دھماکے ہوئے، جبکہ ایک دھماکہ نہ ہوسکا۔ جو کہ عباس علی نے ناکام بنا دیا۔ ایک دھماکہ اندر ہال میں ہوا جبکہ دوسرا دھماکہ مسجد کے برآمدے میں ہوا۔

نمائندہ: اس دوران باہر سے کسی نے مدد کی، کوئی مدد کے لئے پہنچا؟
محب علی: نہیں ہم مسلسل کمک کے انتظار میں تھے کہ شاید کوئی کمک کے لئے پہنچ جائے، لیکن مسجد میں موجود نہتے نمازیوں کا حوصلہ ہی تھا جس نے زیادہ نقصان سے بچالیا۔ ورنہ دشمن نے جو تیاری کی تھی، انکا ارادہ یہی تھا کہ ایک ایک کرکے سب کو قتل کر ڈالے۔

اسلام ٹائمز: یہ سارا خونی کھیل کتنا عرصہ جاری رہا۔؟
محب علی: کیا بتائیں، ہم انتظار میں تھک گئے، بہت عرصہ لگا، میرے خیال میں چالیس پچاس منٹ تک یہ معاملہ جاری رہا، اتنے عرصے میں بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن کسی جانب سے کوئی کمک نہیں آئی۔

اسلام ٹائمز: مسجد اور نمازیوں کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار اور چوکیدار کا کردار کیا تھا، انہوں نے مزاحمت کی تھی یا دہشتگرد بغیر کسی مزاحمت کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگئے تھے؟
محب علی: اللہ ہی بہتر جانتا ہے، کیونکہ ہم تو اندر مسجد میں تھے۔ باہر کی صورتحال کا کوئی علم نہیں، اس بارے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔

نمائندہ: پولیس یا دوسرے سکیورٹی اہلکار باہر موجود تھے؟ اگر تھے تو تعداد کتنی ہوگی۔؟
محب علی: پولیس موبائل عموماً موجود رہتی ہے، اور وہ اس دن بھی موجود تھی۔ میرے خیال میں چھ سات افراد موجود تھے، جن میں سے ایک ہمارے علاقے کا پولیس اہلکار ضامن حسین بھی اکثر ہوا کرتا ہے۔ باہر کا مجھے صحیح علم تو نہیں، تاہم اتنا کہنا کافی ہوگا کہ کمک کے انتظار میں ہم مسجد کے اندر تھک گئے، لیکن کوئی اس وقت تک کمک کو پہنچ نہ سکا، جب سارا کام تمام ہوگیا۔ حالانکہ حادثہ بہت طول پکڑ گیا۔ اس دوران بہت کچھ ہوسکتا تھا۔

نمائندہ: پولیس یا ایف سی وغیرہ نے کوئی کمک کی۔؟
محب علی: نہیں، ٹائم پر کوئی بھی کمک کو نہیں پہنچا، ہاں جب دھماکے اور فائرنگ ختم ہوگئی تو پولیس وغیرہ اندر داخل ہوئی، اور لاشوں کو اٹھانے لگے۔ اس دوران میں نے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ اس خودکش حملہ آور کی ایک تصویر بنا لیں، چونکہ میرے پاس موبائل اور کیمرہ نہیں تھا۔ تو پتہ نہیں کسی نے تصویر لی یا کسی کو بھی فرصت نہ ملی۔

نمائندہ: خودکش حملہ آوروں کا لباس کس قسم کا تھا؟
محب علی: کالے رنگ کے لباس میں ملبوس تھے۔

نمائندہ: آپ نے کہا کہ عمران خان ہسپتال کے اوپر سے بھی فائرنگ ہو رہی تھی، بتائیں وہ کتنے لوگ ہونگے۔؟
محب علی: کیا بتاوں، اندازہ نہیں، چونکہ ہم خود اپنی فکر میں مبتلا تھے۔ اتنا ہی جانتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ ایک سائڈ پر ہوجائیں، عمران خان (کینسر) ہسپتال سے فائرنگ ہو رہی ہے۔

نمائندہ: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بیٹے کا فراق بہت مشکل ہوتا ہے۔ بتائیں بچے کی شہادت پر کیا جذبات اور تاثرات ہیں۔؟
محب علی: یقیناً میں نے بھی سنا تھا کہ بیٹے کا فراق بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم میں نے یہ بھی سنا تھا علماء سے کہ جوان بیٹے کی موت سے انسان کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ میرے دل میں اکثر یہ تمنا پیدا ہوتی تھی کہ اگر بیٹے کی موت بخشش کا سبب بن سکتی ہے تو یہ سعادت مجھے بھی نصیب ہو۔ یہ تو اس وقت کی بات ہے، لیکن جب عملاً بیٹے کا جنازہ دیکھا تو بہت گراں گزرا۔ تاہم سب گواہ ہیں۔ میں نے بیٹے کو اپنی گود میں جب اٹھایا تو کپڑے رنگین ہوگئے، اور میں نے کوئی فریاد نہیں کی ہے۔ دو تین منٹ بعد میں بالکل نارمل ہوگیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ خصوصاً یہ دیکھنے پر، کہ میرے بیٹے کی جرات کی وجہ سینکڑوں نمازیوں کی جان بچ گئی ہے، تو اللہ کا بہت شکر ادا کیا۔ جو خدا نے اس کام کے لئے میرے بیٹے اور میرے خاندان کو چنا تھا۔

نمائندہ: شہید عباس علی کی زندگی سے متعلق اسلام ٹائمز کے قارئین کو مطلع فرمائیں۔؟
محب علی: عباس علی میرا تو بیٹا تھا، مجھ سے نہیں بلکہ جائیں آپ گاوں والوں سے اور میرے چھوٹے بھائی وہاب علی سے پوچھیں۔ وہ عباس علی کے اخلاق سے آپکو آگاہ کریں گے۔ بہر صورت عباس علی نماز کا بہت پابند تھا، ہمیشہ نماز اپنے وقت پر پڑھا کرتا تھا۔ کبھی نماز میں کوتاہی نہیں برتی۔ بہت چھوٹی عمر میں داڑھی نکل آئی تو کبھی شیو نہیں کی، بلکہ چھوٹی سی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ وہ بہت بردبار تھا، کبھی چچا اسے ڈانٹتے یا مارتے، تو وہ کہتا کہ چچا جان دیکھیں، میری داڑھی ہے، مجھ سے بڑا ہونے کے باوجود آپکی داڑھی نہیں، اور پھر بھی آپ مجھے مارتے ہیں۔
میرے بھائی وہاب علی، جو کہ عباس علی کے چچا ہیں، کہتے ہیں کہ میرا بھتیجا شادی شدہ تھا اسکے باوجود کبھی نہانے کے لئے یا کسی اور کام کی غرض سے دریائے کرم (جو کہ گاوں کے قریب ہی واقع ہے) کے ساتھ واقع چشموں پر بھی جاتے تو مجھ سے اجازت لیکر جاتے۔ وہاب علی اسی وجہ سے دن رات روتا ہے، اور کہتا ہے کہ کاش میرے دونوں بیٹے مرجاتے، لیکن عباس علی نہیں۔ اگر اس میں کوئی کمی ہوتی تو چچا صاحبان کو اتنا درد نہ پہنچتا، اسکے علاوہ گاوں والے کہتے ہیں، کہ اپنی پوری زندگی میں اس نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ میرے والد نے اسکا نام عباس علی رکھا تھا۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوںِ کہ میرا بیٹا بہت حیادار تھا، کبھی باہر سے یا رشتہ دار خواتین گھر میں آتیں تو میرا بیٹا اس کمرے کا رخ نہ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ گھر ہی سے نکل جاتا تھا۔

نمائندہ: عباس علی کا پسندیدہ مشغلہ کیا تھا۔ کوئی کھیل یا مخصوص جاب۔؟
محب علی: عباس علی کو بچپن سے آرمی میں بھرتی ہونے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں بڑا ہوکر آرمی میں بھرتی ہوجاونگا اور یہ کہ اگر پاک انڈیا جنگ چھڑ گئی تو اپنے ملک کی طرف سے لڑ کر ملک کا نام روشن کرونگا۔

نمائندہ: کرم پر مسلط کردہ جنگ میں عباس علی ادھر ہی تھے، یا دوبئی میں تھے۔؟
محب علی: اسوقت یہ اسٹوڈنٹ تھا۔ میں تو ملازمت کے سلسلے میں پشاور میں تھا۔ تاہم گھر والے اور گاوں والے کہتے ہیں، کہ گاوں والے اپنے ہم سن جوانوں کے ہمراہ اکثر محاذ جنگ پر جایا کرتا تھا اور پھر دس دس بارہ بارہ دن تک محاذ پر رہتا تھا۔ انکے چچا اور گھر والے اکثر اسکے لئے فکرمند رہتے تھے۔ میں تو خود ساتھ نہیں تھا کہ اپنی طرف سے کچھ کہوں، جبکہ محاذ میں زیادہ عرصہ گزارنے والے مجاہدین کا کہنا ہے کہ دوران جنگ عباس علی کو بردبار، جرار، اور اصولوں کا پابند پایا۔

نمائندہ: کبھی شہادت کی آرزو کرتے عباس علی کو سنا تھا۔؟
محب علی: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ فوج میں بھرتی ہونے کا دلی ارمان تھا اور اکثر کہا کرتے تھے، کہ کاش پاکستان کی طرف سے دشمن (انڈیا) کے ساتھ لڑائی میں شامل ہوتا۔ اسکے علاوہ حادثے کے دن گھر میں غسل جمعہ کیا، اور صاف کپڑے پہنے، اسکے بعد جسم پر عطر لگایا، لیکن ایک بات کے لئے میں حیران ہوا کہ معمول کے خلاف انہوں نے دونوں بازووں پر بھی سپرے کیا، میں نے کہا کہ بیٹا، اتنا زیادہ عطر لگایا، گویا عطر میں نہا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا پتہ، راستے میں موت واقع ہوجائے، تو بدبو کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ ساڑھے گیارہ بجے ہم گھر سے نکلے، ادھر پہنچے تو ایک بجنے والا تھا۔ میں نے مسجد ہی میں وضو کیا، تو اس وقت نماز شروع ہوگئی۔

نمائندہ: بیٹے کے حوالے سے کوئی ارمان دل میں ہے۔؟
محب علی: دیکھیں موت تو واقع ہونی ہی ہے، میں اس بات پر بہت فخر کرتا ہوں کہ میرے بیٹے کی وجہ سے متعدد نمازیوں کی جانیں بچ گئیں۔ حتی کہ میرے کپڑے بیٹے کے خون سے سرخ تھے، دوستوں نے کپڑے تبدیل کرنے کو کہا تو میں نے کوئی حوصلہ نہیں ہارا بلکہ کہا کہ بالکل تسلی میں رہیں، بیٹے کا غم یقیناً بہت بھاری ہوتا ہے، تاہم میں نے اس موقع اور پھر آج تک حوصلہ نہیں ہارا ہے، چھوٹے بھائی وہاب کو بھی میں ہی تسلی دیتا ہوں۔ اسکے علاوہ بیٹے کا جنازہ جب پشاور شہر لایا گیا تو میں قصہ خوانی بازار سے کوچی بازار تک اور وہاں سے مینہ بازار تک خون آلود کپڑوں کے ساتھ گیا، تو اس دوران مجھے کوئی افسوس نہ تھا، بلکہ میں فخر محسوس کر رہا تھا کہ میرے کپڑے میرے بیٹے کے خون سے سرخ ہیں۔

نمائندہ: شہید عباس علی کے متعلق گھر کے دوسرے افراد، دادا اور چچا وہاب کے کیا تاثرات ہیں؟
محب علی: یقیناً والدین کو بیٹے کی موت پر زیادہ افسوس ہوتا ہے، لیکن ہمارے گھر میں میرے چھوٹے بھائی وہاب کی حالت بہت ہی قابل رحم ہے، وہ کہتا ہے کہ میرے اپنے بیٹے بھی ہیں۔ وہ اتنے فرمانبردار نہیں، جتنا عباس علی تھا، میری اجازت کے بغیر قریب ہی واقع چشموں میں نہانے بھی نہ جاتا تھا۔ ہر وقت مجھ سے اجازت طلب کرتا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button