مقالہ جات

تکفیریوں کیخلاف عاشقان مصطفٰی (ص) کی عالمی صف بندی

کیا آپ نے غور کیا کہ اس سال ماہ ربیع الاول نے دنیا کے سامنے کس حقیقت کو منظم انداز میں پیش کیا ہے؟ ایک جملے میں کہیں تو اس نے دنیا کو تکفیری وہابی ناصبی نظریہ کے خلاف امت اسلام ناب محمدی کی عالمی صف بندی کی خبر دی ہے۔ وہ کیسے؟ غور فرمائیں، سرکار دو عالم سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی ولادت کی سالگرہ کی عید یا جشن یعنی عید میلادالنبی (ص) ایک نئے رنگ اور منفرد ڈھنگ کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ عید میلادالنبی (ص)ایک گلوبلائزڈ تہوار ہوچکا ہے۔ تکفیری وہابی سعودی نظریہ سازوں کی جانب سے اس عید، اس جشن کو ناکام یا محدود کرنے کی سازش کو عالم اسلام نے ناکام بنا دیا ہے۔ عاشقان محمد مصطفٰی (ص) نے عرب دنیا میں بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔ خاص طور پر عراق، لبنان، یمن اور بحرین میں یہ عید بزرگ دھوم دھام کے ساتھ منائی گئی ہے۔ عراق میں سرکاری سطح پر اور دیگر ممالک میں عوامی سطح پر، اور اس کا کریڈٹ ان عرب ممالک کے شیعہ مسلمانوں کو جاتا ہے، جنہوں نے تکفیری وہابیت کے نظریہ ضد عید میلادالنبی (ص) کو مسترد کرتے ہوئے اسلام ناب محمدی کے روشن و تابندہ نظریہ کا احیاء کیا ہے۔

یاد رہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد سے ایران نے سرکاری سطح پر ماہ ربیع الاول کے ان ایام کو ہفتہ وحدت مسلمین کے عنوان کے تحت امت اسلام کو اتحاد کے عظیم اور مضبوط بندھن میں پرونے کا پرخلوص آغاز کیا تھا اور اب 12 تا 17 ربیع الاول مساجد اور امام بارگاہوں میں میلاد مسعود نبی اکرم (ص) کا جشن منایا جاتا ہے۔ ایران میں عید میلادالنبی (ص) کی مناسبت سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر علماء و دانشوروں پر مشتمل عالمی وفود اور ایران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں کو رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی امام خامنہ ای نے اپنے یہاں مدعو کیا۔ انہوں نے وحدت اور اتحاد کو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی (ص) کا عظیم درس اور امت اسلامیہ کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف و تجلیل صرف گفتگو تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ آنحضور (ص) کے وحدت پر مبنی پیغامات کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے اور مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے حکام کو اسے اپنی ترجیحی پالیسیوں میں قرار دینا چاہیے۔

انہوں نے دشمنان اسلام کی تفرقہ انگیز پالیسیوں اور منصوبوں کے کامیاب ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اگر مسلمان قومیں ان تمام وسائل اور بے مثال خصوصیات کے ساتھ جزئی موضوعات میں نہیں بلکہ کلی جہات میں ہم دل اور ہم زبان ہوجائیں، تو امت اسلامیہ کی عظمت و ترقی و پیشرفت یقینی بن جائے گی اور عالم اسلام کی وحدت اور ہمدلی و ہم زبانی کا عالمی سطح پر فروغ پیغمبر اسلام (ص) کی عزت و عظمت اور آبرو کا باعث بن جائے گا۔ انہوں نے عید فطر کے دن مسلمانوں کے عظیم اجتماع اور حج کے عظیم اجتماع کو امت اسلامیہ کی کلی جہات میں ہمدلی اور ہم زبانی کے دو نمونے قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس سال حضرت امام حسین (ع) کے چہلم کے موقع پر کئی ملین مسلمانوں نے ایک عظیم اور تاریخی اجتماع منعقد کیا، جس میں اہلسنت بھی شامل تھے اور عالمی سطح پر اس عظیم اور تاریخی اجتماع کے مثبت اثرات مرتب ہوئے جو عالم اسلام کے لئے عظمت اور صد فخر کا باعث ہیں۔

آیت اللہ العظمٰی امام خامنہ ای نے عالم اسلام میں اتحاد کے قیام کی تشریح کے سلسلے میں سوئے ظن اور مختلف شیعہ و سنی فرقوں کی ایک دوسرے کے بارے میں توہین آمیز رفتارسے پرہیز کو بہت ہی اہم قرار دیا اور مغربی ممالک کے جاسوس اور خفیہ اداروں کی تفرقہ پیدا کرنیکے سلسلے میں وسیع کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ شیعہ جو برطانوی ایم آئی 6 کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ سنی جو امریکی سی آئی اے کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ دونوں اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کے خلاف ہیں۔ انہوں نے عالم اسلام کے دانشوروں، علماء اور سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک سوال پیش کیا کہ جب عالمی منہ زور طاقتیں، اسلام کے روشن و تابناک چہرے کو مسخ کرنے اور اسے خوفناک بناکر پیش کرنے میں مصروف ہیں، کیا اس صورتحال کے پیش نظر اسلامی فرقوں کے درمیان تفرقہ انگیزی اور تخریب کارانہ کارروائی، حکمت، عقل اور سیاست کے خلاف نہیں ہے۔؟

انہوں نے برملا کہا کہ بعض علاقائی ممالک کی غیر عقلمندانہ پالیسیوں کے باوجود ایران ہمسایہ، علاقائی اور اسلامی ممالک کے ساتھ اپنی دوستانہ اور برادرانہ پالیسی جاری رکھے گا۔ 60 ممالک سے زائد سے تعلق رکھنے والے سنی شیعہ علماء و دانشوروں نے ۳روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرکے اتحاد امت کے نظریئے کی کامیابی کا اعلان کیا اور اس میں امت متحدہ کو درپیش چیلنجز اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی پر غور و خوض کیا۔ یہاں لبنان کے سنی عالم شیخ عبدالناصر الجبری، سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے عالم دین ڈاکٹر عدنان الشخص، ایرانی سنی علماء گل محمد مومن اور مولوی سید عبدالصمد سادتی سمیت سبھی نے تکفیریوں کے مقابلے میں عالم اسلام کے اتحاد و مفاہمت پر زور دیا۔ سنی علماء نے امام خامنہ ای کے موقف کی تائید کی۔

ایران ہوا عجم کا شیعہ اکثریتی ملک لیکن یمن کے شہر ایب میں عرب شیعہ زیدی حوثیوں نے میلادالنبی (ص) کا اہتمام کیا تھا، لیکن یہ بات سعودی حکومت کے حمایت یافتہ وہابی تکفیری دہشت گردوں کو پسند نہ آئی اور ایک عورت کا روپ دھار کر اس میں دھماکہ کر دیا۔ وہاں 49 عاشقان رسول (ص) نے جام شہادت نوش کیا اور70 سے زائد زخمی ہوئے۔ یمن کے زیدی شیعہ حوثیوں نے سنت حضرت اویس قرنی (رض) کو آج بھی زندہ و تابندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں راولپنڈی کے نزدیک چٹیاں ہٹیاں کی امام بارگاہ ابو محمد رضوی میں جشن عید میلادالنبی (ص) پر دہشت گردوں نے بم دھماکہ کرکے وہاں بھی شمع رسالت (ص) کے پروانوں کو اس عظیم عید منانے کی سزا دی، لیکن 10 عاشقان رسول (ص) کی شہادت کے بعد بھی وہاں یہ نعرہ لگا کہ غلام ہیں، غلام ہیں، رسول (ص) کے غلام ہیں اور سب نے لبیک یارسول اللہ (ص) کا نعرہ بلند کرکے دشمن کو بتا دیا کہ میلادالنبی (ص) کا جشن منایا جاتا رہے گا۔

یمن میں حرکت انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ امریکہ و اسرائیل تکفیری دہشت گردوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لئے دہشت گردی کر رہے ہیں۔ عبدالملک کے حامیوں نے یمن کو سبز بنا دیا۔ جشن کے اجتماعات میں ہرے جھنڈے، مساجد پر ہرا رنگ اور گلی محلوں کو ہری جھنڈیوں سے سجا دیا تو گاڑیوں پر بھی ہرا رنگ کر دیا گیا۔ گنبد خضرا کا رنگ یمن کا رنگ بن گیا۔ عراق کے شہر بصرہ میں عید میلادالنبی (ص) کے موقع پر تکفیری دہشت گردوں نے 3 سنی علماء کو شہید کر دیا اور سامرہ میں اولاد رسول اکرم (ص) حضرت امام علی نقی و حسن عسکری کے مزار مقدس پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا، دیگر اجتماعات پر بھی حملے کئے گئے، لیکن عراقی فوج اور عوام نے دہشت گردوں کو ہر محاذ پر پسپائی پر مجبور کر رکھا ہے اور اب وہ بزدلوں کی طرح اچانک اور چھپ کر وار کرتے ہیں۔ عراق میں بھی جشن عید میلادالنبی (ص) کے موقع پر چراغاں کیا گیا۔ کربلا، نجف، سامرہ سمیت پورا عراق جگمگا رہا تھا۔

لبنان کی حزب اللہ نے بیروت کے جنوب میں ضاحیہ کے علاقے میں جشن کا مرکزی پروگرام منعقد کیا۔ حزب اللہ کے صہونیت شکن قائد حسن نصراللہ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ تکفیری دہشت گرد کھلے عام شان رسالت (ص) میں گستاخی کر رہے ہیں کیونکہ وہ جشن عید میلادالنبی (ص) منانے والے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں، کہیں خودکش حملے کر رہے ہیں تو کہیں مسلمانوں کے سر کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد اس خطے کے سارے ممالک کے آج اور آنے والے کل کے لئے خطرہ ہیں، بلکہ یہ دہشت گرد گروہ اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کے مشن اور قرآن مجید کے لئے بھی خطرہ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ تکفیری اسلام اور مسیحیت کو بھی متصادم کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بے وقوف غلطی پر ہیں اور عالم اسلام ان کی سازشوں سے خبردار رہے۔ بحرین اور سعودی عرب میں بھی بادشاہتوں کی مخالفت کے باوجود عوامی سطح پر عید میلادالنبی (ص) منائی گئی۔ اسلامک سینٹر آف انگلینڈ سمیت کئی یورپی ممالک، امریکہ اور حتٰی کہ سرزمین حضرت بلال (رض) افریقہ میں بھی آقا و مولا حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی ولادت کی سالگرہ کے موقع پر جشن منایا گیا۔

اس طرح پوری دنیا میں ایک نئی صف بندی کا مشاہدہ کیا گیا۔ عاشقان و غلامان حضرت محمد (ص) ایک صف میں کھڑے دکھائی دیئے اور ان پر حملہ آور دشمنوں کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ امت اسلام اور انکے درمیان دشمنوں کے ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کے مابین یہی وہ فرق ہے جو دنیا پر آشکار کرنے کی ضرورت تھی۔ امت اسلام نے اس فرق کو دنیا پر آشکار کر دیا کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی اتحادی سعودی بادشاہت نے وہابی نظریہ کی بنیاد پر جو دہشتگردی، جنونیت اور انتہا پسندی دنیا بھر میں پھیلائی، اسکا امت اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ عید میلادالنبی (ص) کے جشن نے دنیا پر اسلام کے لبادے میں چھپ کر کام کرنے والے تکفیریوں کو پوری دنیا میں ذلیل و رسوا کر دیا۔ عالم انسانیت کو یہ نئی صف بندی مبارک ہو۔۔ خدا کرے کہ مسلمان یونہی خوشیاں مناتے رہیں اور ان کی مقدس خوشیوں سے جلنے والے اپنی نفرت کی آگ میں خود ہی بھسم ہوجائیں۔ وہ دن دور نہیں مکہ و مدینہ کی ہر گلی میں لبیک یارسول اللہ (ص) کے نعرے لگاتے مسلمانوں کے جشن عید میلادالنبی (ص) کے بابرکت اجتماعات ہوں گے۔ آل سعود یاد رکھے کہ عاشقان مصطفٰی ﷺ اپنے اس ناقابل تنسیخ حق سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے۔

تحریر: عرفان علی

متعلقہ مضامین

Back to top button