مقالہ جات

کل کرے سو آج کر، آج کرے سو اب کر!

کل کرے سو آج کر، آج کرے سو اب۔ ہمیں بچپن سے یہ ہی سکھایا گیا تھا۔ جیسے جیسے میری زندگی آگے بڑھتی گئی، مجھے اندازہ ہوتا گیا کہ خواتین کے ذہنوں میں کاموں کی جو کبھی نہ ختم ہونے والی لسٹیں موجود ہوتی ہیں، ان سے نمٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ترجیحات طے کی جائیں۔

پہلے میں سامنے موجود کام کرنے کے بجائے ادھر ادھر کے کام کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔ لیکن جب مجھ پر کاموں کا لوڈ بڑھتا گیا، تو مجھے معلوم ہوا کہ میں ٹائم مینیجمنٹ میں بہتر ہورہی ہوں، جبکہ فیصلے کرنے میں بھی اب مجھے کم وقت لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے کام بہتر طور پر اور کم غلطیوں کے ساتھ مکمل ہونے لگے۔

کچھ مہینوں بعد مجھے محسوس ہوا کہ پاکستان میں یہ عام رواج ہے کہ ہر چیز کے بارے میں غیر موثر لیکن شدید شکایتیں کی جائیں۔ یہی بیماری، یعنی اپنی ترجیحات درست نہ رکھنا، ہمارے لیڈروں کو بھی لاحق ہے۔

صورتحال پر ایک سرسری نظر بھی بہت پریشان کن نتائج کی تصویر کشی کرتی ہے۔ حکومت اس بات کی پوری کوشش کر رہی ہے کہ کم از کم دکھانے جتنی ہی ترقی کر لی جائے۔ اسکول بنائے جاتے ہیں، لیکن بچوں کو سکیورٹی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورک ایسی آبادی کے لیے بنائے جارہے ہیں، جس کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ غیر ملکی دوروں پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنے کے بعد بھی یہ بات سمجھی نہیں جاسکی ہے کہ وزارتِ خارجہ کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ طرح طرح کے مسائل میں الجھی ہوئی قوم کے سامنے اب خامیوں سے بھرپور اور بغیر پلاننگ کے لیے گئے فیصلوں کے نتائج کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

تو پلان بنانا کس قدر مشکل ہے؟

بے شمار ماؤں کی آہوں اور 134 بچوں کی جانوں کے بعد اب سیاسی رہنماؤں کو اس بات کا اندازہ ہورہا ہے کہ کوئی پلان موجود نہیں ہے اور ایک پلان بنانے کی ضرورت ہے۔

پڑھیے: طالبان حامیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا وقت

اب جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کوئی تاریخی بے وقوفی سامنے آتی ہے، تو میں صدمے میں جانے کے بجائے یہ سوچتی ہوں کہ کیا یہ واقعی حادثاتی طور پر ہوا؟ یا اس بے وقوفی کو کرنے کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک ساتھی نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک چالاک لیڈر کی حکمرانی ایک بے وقوف لیڈر سے زیادہ بہتر ہے۔ تیاریوں میں اس شدید کمی کی وجہ کیا خود غرضی ہے، ذہانت کی کمی ہے، یا صرف اور صرف سستی؟ مجھے لگتا ہے کہ آخر الذکر ہی اصل وجہ ہے۔

اور اگر یہ وجہ ہے، تو ایک ایسا مسئلہ جو ہم سب کو بلاتفریق اگر زیادہ نہیں تو پچھلے 11 سال سے اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، اور جس پر لاتعداد مضامین لکھے جاچکے ہیں اور ٹاک شوز میں صبح و شام بحث ہوتی ہے، اس پر اب تک کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچنا مجرمانہ غفلت ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم جیلوں میں موجود مجرموں کی پھانسیوں پر زور دیتے، کیا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ہم حکومت کو ایکشن پلان کے نہ ہونے پر موردِ الزام ٹھہراتے؟

اگر مارشل لاء نے جمہوری نظام کو تباہ کیا ہے، تو جمہوری نظام نے پچھلے سات سالوں میں کیا کارکردگی دکھائی ہے؟

اور اگر جمہوری حکومتیں کرپٹ اور نااہل ہیں، تو فوجی حکومتیں کیوں ایسی پالیسی نہیں لاسکی ہیں جو کام کر دکھاتیں؟ ملٹری کو آخر کیوں آپریشن ضربِ عضب لانچ کرنے میں سات سال لگ گئے، جسے اس کے لانچ کے ساتویں دن ہی کامیاب قرار دے دیا گیا تھا؟

مزید پڑھیے: دکھ کا نیا پیغام

کیا ہم اس بات پر یقین کریں کہ فوج کمزور لیکن جمہوری پی پی پی حکومت سے اجازت کا انتظار کر رہی تھی؟

زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ولسن سینٹر کے مائیکل کوگلمین کی رشیا ٹوڈے پر بات چیت سنیں کہ دہشتگردی کے خلاف ہمہ جہتی پالیسی کی ضرورت ہے، اور اسے صرف آپریشن سے نہیں ختم کیا جاسکتا، بھلے کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو۔

ڈرون ٹارگٹ کو نشانہ بنانے میں موثر ہوسکتا ہے، لیکن یہ حکمتِ عملی اچھی نہیں ہے۔ معاشرہ اور سیاسی جماعتیں دونوں ہی انتہاپسندی کو خوراک فراہم کرنے والوں میں ہیں۔ جب بھی دہشتگرد جنگجو کی بات آئے، تو کوئی اچھے اور برے کی بات نہیں، سب ایک ہی تھان سے کاٹے گئے کپڑے ہیں۔

پشاور حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شمالی وزیرستان میں بھلے کتنی ہی آئی ای ڈی فیکٹریاں تباہ کردی جائیں، ہمارے شہری اسکولوں تک دہشتگردوں کو زیادہ راستہ ملے گا۔

آپ کتنی ہی خودکش جیکٹیں ضبط کرلیں، نئی تیار ہوجائیں گی۔ کینٹونمنٹ کتنے ہی محفوظ کیوں نہ ہوں، ہمارے بچے کبھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ ہم لکھتے رہیں گے، ٹوئیٹ کرتے رہیں گے، اور انتہا پسندی اور برین واشنگ کے خلاف براڈکاسٹنگ کرتے رہیں گے، لیکن ہم مدرسوں میں زیرِ تعلیم بچوں کے لیے کیا متبادل پیش کریں گے؟

ہم انسدادِ دہشتگردی ماہرین کے دستخطوں والی کتابوں سے اپنے شیلف بھر لیں گے، لیکن کبھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کریں گے کہ ہمارے بچوں کو کیا پڑھایا جارہا ہے۔

مجھے جنرل کے گھر کے پاس روکا جائے گا اور میرا بیگ ایک مرد سکیورٹی گارڈ چیک کرے گا، لیکن مقامی مسجد جس کے تہہ خانے میں بنکر موجود ہے، اسے کوئی چیک نہیں کرے گا۔

جب آپ کو معلوم ہو کہ اب آپ کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے تو پلان بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب اور پارلیمانی لیڈروں سے میری گزارش ہے کہ اپنے بچے کو کھو دینے والے والدین کو سات دن کے بجائے صرف سات گھنٹے دے دیں، وہ یہ پلان آپ سے بہتر طور پر بنا کر دکھا دیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button