اے کاش ! قاسم سلیمانی جیسے کمانڈر میرے پاس بھی ہوتے۔ اوباما کا اعتراف
المنارٹی وی نے حالیہ دنوں میں ایک اہم رپورٹ شائع کیا ہےجس میں عراقی فوج کوداعش کے ہاتھوں مقبوضہ علاقوں کوآزادکرانے میں ملنے والی کامیابیوں کو بیان کیا ہے،جس میں خاص طورسے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاگیاہے جہاں القدس فورس کے کمانڈرانچیف جنرل قاسم سلیمانی نے سرزمین ِ عراق میں داعش کے خلاف اس جنگ میں اپنے عظیم بہادری کوکس طرح پیش کیا۔
اس رپورٹ کو’’اسراء الفاس‘‘ نے ’’ بغدا: جب سلیمانی کاجہاز اترا‘‘ کے عنوان سے ضبط تحریرمیں لایا ہے۔داعش کوقبضہ کرنےکےلئےگزشتہ ماہ۱۰ جون تک تقریبا خطے کے نصف علاقے ہی باقی تھے کہ۱۸ستمبرکواتحادی ممالک کے افواج کے حملے شروع ہوئےتو ایک طرف عراق کی سیاست میں تبدیلی آئی تودوسری جانب جنگی میدان میں داعش کو ترقی ملی ۔سقوط موصل کے بعدتوداعش کی شکل ایک خطرناک درندے کی صورت میں سامنے آئی تھی جہاں اسے جنگی میدان میں ایسی کامیابیاں ملی تھی جنہیں دنیاکے تمام ذرائع وابلاغ نے پردہ ڈالاہواتھا۔اس لئے کہ بغداداوراس کے اطراف، سامراء،الدجیل، تلعفر،آمرلی،سلیمان بیک کے علاوہ صوبہ صلاح الدین کے ایک وسیع علاقے تک اپنے لپیٹ میں لیاتھا۔زمانہ گواہ ہے کہ اس کی وحشت ودرندگی جنگلی چیتے کی چیڑپھاڑسے کچھ زیادہ ہی تھی۔
بروزبدھ۱۰جون۲۰۱۴کوجب سقوط موصل اورگردونوح کی خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی جہاں عراقی وزارت دفاع کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا کہ آرمی کاایک خاص دستہ داعش کی سرکوبی کے لئے موصل بھیجا جائے،اس وقت کے حکمراں نوری المالکی نے اسی روز یہ اعلان کیا کہ بالعموم پورے عراق اس وقت خطرے کی حالت میں ہے۔لہٰذااس نے پارلیمنٹ کاہنگامی اجلاس بلایاتاکہ نجف اشرف کے مراجع دینی سے دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لئے عوام کوعراقی فوج کے ساتھ امداد کرنے کاحکم صادرفرما دیں۔
ادھرداعش کے ترجمان ابومحمدالعدنانی فتح کے گھمنٹ لئے داعش کے دہشت گردوں سے یہ کہتے ہوئے نمودار ہوا ’’ ساتھیو! آجائو اور بغدادکی طرف بڑھ جائو‘‘
ادھرسعودی عرب کےایک چینل نے داعش کی نفسیاتی جنگ شروع کی اوریہ خبرنشرکیا کہ’’اس وقت بغداد انٹرنیشنل ائرپورٹ کے شمال میں واقع علاقے میں گھمسان کی لڑائی ہوئی ہے اور چندراکٹوں نے ائرپورٹ کے بنیادی دیوارکونشانہ بنایاہےجس کی وجہ سےوہاں پر امن وامان کی صورت خراب ہے اورفضائی آمدورفت معطل کی گئی ہے۔تاہم فوری طورسے بغداد کے مسئول کی طرف سے اس خبرکی تردیدسامنے آئی۔
۱۳جون کوعراقی فوج نے یہ اعلان کیا کہ وہ دارالحکومت بغدادمیں دوبارہ امن وامان بحال کرانے میں کامیاب ہوئی ہے،اس اعلان کی حمایت میں مراجع عظام کی طرف سے فتاویٰ بھی سامنے آئے جس میں کہاگیاتھا کہ تمام عراقیوں کو دہشت گردوں کے خلاف اسلحے اٹھاناواجب ہے۔اس کے بعدسے عراقی فوج یہ اعلان کرتی ہوئی نکلی کہ ’’ لوگو! ہمارے ساتھ تعاون کروہم داعش کو تہس نہس کرکے رکھ دیں گے۔
سلیمانی کی سرزمین عراق کے جنگی میدانوں میں کھینچی گئی تصاویرنےامریکی صدراوباماکو ایک عراقی مہمان کے سامنے یہ اقرار کرنے پرمجبورکیا:
یہ ہے میرادشمن! ۔۔۔۔ اے کاش!اس جیسا بہادر میرے فوجیوں میں ہوتا۔
یہ ساری صورت حال اچانک کیسے بدل گئی؟ میزکے بیج سے داعش کے سرتک؟
قاسم سلیمانی بغدادمیں:
المنارٹی وی نے سرزمین عراق سےمختلف باخبرذرائع کےحوالےسے بتایا، جب یہاں سقوط موصل کو چندگھنٹے گزرگئے تھے کہ وہاں بغدادمیں ایک خاص جہاز اتراجس کے اندرانقلاب اسلامی ایران کے القدس فورس کے کمانڈرانچیف جنرل قاسم سلیمانی اپنے ہم وطن عسکری ماہرین سمیت چندلبنانی مبصرین کے ہمراہ سوارتھے۔
ادھربغدادمیں مختلف عوامی جماعتوں :اہل الحق،البدر،عراق کے حزب اللہ ،جماعت سیدالشھداءؑ ،جماعت امام علیؑ اورالرسالت موومنٹ کےسربراہان عوام کی ایک جمع غفیرکے ہمراہ اس آنے والے وفد کے شدت سے انتظارمیں تھے۔خیال رہے یہ وہ جماعتیں تھیں جو عراق پرامریکی قبضے کی مخالفت میں وجودمیں آئی تھیں،سووہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امدادپر خوش تھیں۔
یہ بات حقیقت سے خالی نہیں ہے کہ عراقی افواج کی قوت ،ارادے اورپیش قدمی میں کبھی بھی لغزش دیکھنے میں نہیں آئی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق مختلف ان تمام جنگوں میں مسلح جماعتیں اپنی مکمل تیاری کے ساتھ عراقی افوج کے ساتھ شانہ بشابہ رہیں۔ادھرعراقی افواج جن کے بارے میں عالمی ذرائع وابلاغ کے مطابق حکومت کے سیاسی معاملات کے تلے جھک جائے گی جہاں دہشت گرداپنی مکمل تیاری کے ساتھ مقابلہ کررہے تھےکہ اچانک مسلح عراقیوں کومیدان جنگ بے چینی کاسامناکرناپڑا،ضرورت اس امرکی تھی کہ کوئی ان جماعتوں کومنظم کریں اورجنگی امورکی نگرانی کریں۔ادھرمراجع کرام کے فتاویٰ پرلبیک کہتے ہوئے ہزاروں آنے والے مجاہدین کے استقبال کے لئے مختلف چھاونیاں بنائی گئی تھی۔ ان لوگوں کوجنگوں میں لے جانے سے پہلے مختلف مسلح گروپ اورفوجی بٹالین کے ساتھ ملادیئے گئے تاکہ انہیں ٹریننگ دی جائے۔
پہلے مراحل میں جنگ کے لئے مختلف گروپ بناکربھیج دیئے گئے جس میں بہت ساری کامیابیاں ملی جہاں خاص طور سےالمنار ٹی وی کے رپورٹر محمدالنسر نے وہاں موجود سپاہیوں سے جنرل قاسم سلیمانی کے حوالے سے بتایا کہ سلیمانی نےاچانک سامراء سے بغدادپہنچنے والے راستے کودشمن کے قبضے سے آزادکرانے کاحکم دیا۔ ادھرمختلف گروپوں کے کمانڈرز سلیمانی کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے جویہ کہہ رہےتھے بغیرکسی تیاری کے وہاں جاناخطرے سے خالی نہیں ہے لیکن ادھر سلیمانی جانے پر اصرارکررہے تھے اورکامیابی کی یقین دلارہے تھے بالآخر وہ خودبنفس نفیس وہاں پہنچ گئے اور میدان فتح کرلیا اوروہی ہوا جس کااس نے ارادہ کیا تھا۔
یقیناًجنرل قاسم سلیمانی کے پاس اپنے سپاہیوں کوحوصلےدینے کاایک خاص حربہ تھا،سپاہی کہتے تھے کہ وہ تمام جنگوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شانہ بشانہ ہوتے تھے،ہرایک کے ساتھ وائرلیس کے ذریعے رابطے میں ہوتے تھے،انہیں حوصلے دیتے تھے،ان کی حرکات پرنظررکھتے تھے،انہیں دشمن کی طرف آگے بڑھنے کاحکم دیتے تھے،سخت سے سخت جنگوں میں سلیمانی ان کواطمئنان وسکون کے ساتھ تسلی دیتے رہتے تھے،وہ خود اول وقت میں نمازاداکرتے تھے اوران کے چہرے پرہمیشہ اطمئنان کے آثارنمایاں رہتے تھے۔
برادرمحمدالنسرچندان جوانوں کی کہانی بیان کرتے ہیں جو قاسم سلیمانی کے ساتھ ایک ہی مقام پررہتے تھے کہ سلیمانی صرف تین گھنٹے ہی سوتے تھے،وہ صبح سویرے نمازفجرکے لئے بیدارہوتے تھے اس کےبعد تمام اخبارات کوبڑے غورسے پڑھتے تھے،جہاں چندمنٹ المنارٹی وی بھی دیکھتے تھے۔
عراق میں امریکی جنگ مالکی کے خلاف ہے:
جب عراقی افواج اورعوامی قوت دہشت گردی کے سامنے جھک گئے جس کے نتیجے میں انہیں بڑے پیمانے پرنقصانات کاسامنا ہواتوامریکہ سیاسی جنگ میں مالکی کوجھکانے کے لئے سرگرم ہواجنہیں آخری انتخابات میں غالب اکثریت ملی تھی۔عراق کایہ مطالبہ تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فضائی کاروائیاں کرے،جس کے لئے واشنگٹن نے مالکی کی تبدیلی کی شرط رکھی تھی،لیکن اس کے مقابلے مالکی یہ کہا تھا کہ وہ عراق میں امریکہ کی کسی بھی قسم کی عسکری مداخلت کوماننے کے لئےہرگز تیارنہیں ہے،اس نے سوچا اس طریقے سے امریکہ دوبارہ عراق میں داخل ہوگا، اوروہ یہ تنقیدکرڈالی کہ امریکہ نے عراق کو36F16طیارے دینے میں تاخیرسے کام لیاہے،اس کے مطابق اسی وجہ سے عراقی بری فوج کوروک دیا گیا تھااس لئے اس کہ مددکے لئے فضائی طاقت نہیں تھی۔
جب فئواد معصوم عراق کاصدربناتودوسری جانب ماہ11اگست کو حیدرالعبادی نےنئی حکومت تشکیل دی تو فوراً واشنگٹن نے دونوں کی حمایت کرڈالی۔
سقوط موصل اور19ستمبرکواتحادی ممالک کی طرف سے داعش کے خلاف حملے کے درمیان تین مہینے کافاصلہ ہے،جس میں امریکہ نےداعش کی کامیابیوں سے مالکی کے ساتھ سیاسی معاملات نمٹادیا اوراس وقت تک عسکری مداخلت نہیں کیا جب تک داعش نے کردستان کونشانہ نہیں بنایا جہاں پریورپی مفادات نقصانات پہنچنا شروع نہیں ہوا۔
عراقی فوج اورمزاحمتی جماعتوں کودہشت گردی کے خلاف مسلسل کامیابیاں ملتی گئی، جبکہ دوسری طرف دومہینے گزرچکے ہیں ابھی تک اتحادی ممالک افواج ایک قصبہ آزادکرانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اورابھی تک عراق میں جرف النصر کوفتح کرکے صوبہ دیالیہ کے شہرجلولاء،العظیم ڈیم اوربیجی تک پے درپے آزادکرائے جانے کی بہادری کے چرچےزبان زدخاص وعام ہیں۔
ان تمام جنگوں میں عراقی مجاہدین کوکسی چیزکی ضرورت نہیں پڑی، اگرپڑی تو صرف اورصرف اور جنرل قاسم سلیمانی کی طرف سے جنگی ٹکنیک اورنگرانی کی پڑی۔جہاں جنگی میدانوں سے کھینچی گئی سلیمانی کی تصویریں امریکی صدر کوایک عراقی مہمان کے سامنے یہ کہنے پرمجبورکیا :
یہ ہے میرے دشمن! ۔۔۔۔۔ اے کاش ! میرے فوجی آفیسروں کے اندربھی ان جیسا ہوتا۔
المنار ٹی وی نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ عراقی افواج اور مزاحمتی گروہ اس نصف علاقے کوبھی آزادکرانے میں کامیاب ہوئے جوگزشتہ ماہ جون تک داعش کے قبضے میں تھا،جس کی وجہ داعش کے صفوں میں کمزوری واقع ہونا،اس کے علاوہ ایسے خونین واقعات بھی ہیں جنہیں داعش نے البونمر کے قبائل کے ساتھ کیا۔