پاکستان

کراچی پولیس ڈکیٹی کی واردات کے ساتھ شیعہ نوجوانوں کو اغوا کررہی ہے

کراچی میں گذشتہ رات 4 شیعہ جوانوں کو مختلف مقامات سے کراچی پولیس کے اہلکاروں نے اغوا کرلیا ہے، اطلاعات کے مطابق ان نوجوانوں کو فون کال کرکے دھوکا دیا اور انہیں اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں جبکہ ابھی تک انکی گرفتاری بھی ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ اندآزہ ہے کہ حسب روایت پولیس ان نوجوانوں کو جو ذریعہ معاش میں مصروف تھے اغوا کرکے ان پر تشدد کررہی ہے اور انہیں کسی جرم کی واردات میں زبردستی ملوث ہونے پر اقرار کروارہی ہوگی۔ یہ کراچی پولیس کا شیوا بن گیا ہے کہ بے گناہوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرتے ہیں اور پھر انہیں کسی نہ کسی جرم، ٹارگیٹ کلنگ میں ملوث کرکے اپنا ریکارڈ بنالیتے ہیں، جبکہ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واردات کرنے والے ملزم اسی طرح شہر میں دندانتے پھرتے ہیں۔

ابھی تک گذشتہ رات پولیس کی جانب سے اغوا کیے جانے والے شیعہ جوانوں کا کوئی علم نہیں ہے، جبکہ بتایا گیا ہے کہ ان جوانوں کو گھر سے فون کرکے فلان جگہ پر آنے کا کہا گیا تھا پھر انہیں اغوا کرلیا۔

اسی طرح کراچی پولیس کا ایک اور کارنامہ جو منظرنام پر آیا ہے اس سے شہریوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سے یقین اُٹھ گیا ہے، اطلاعات کے مطابق کراچی میں پولیس اہلکاروں کی انوکھی ڈکیتی ، بن قاسم کے علاقے میں ڈیڑھ ماہ قبل وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے کار شو روم مالک سے لاکھوں روپے لوٹ لئے ، پولیس ابتک سراغ نہیں لگا سکی۔

بن قاسم کے علاقے میں ڈیڑھ ماہ قبل وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے کار شو روم مالک سے لاکھوں روپے لوٹ لئے ، پولیس ابتک سراغ نہیں لگا سکی۔ ایک درجن پولیس اہلکار بغیر کسی خوف کے بکتر بند اور پولیس موبائلوں میں کار شو روم پہنچے۔

دوپہر تین بجے تمام افراد کو یرغمال بنانے کے بعد 34 لاکھ روپے نقدی اور گاڑیوں کے کاغذات لوٹ کر فرار ہوگئے۔ تمام پولیس اہلکاروں نے پولیس یونیفارم اور سرکاری اسلحہ استعمال کیا۔ پکڑے جانے کے خوف سے بکتر بند اور پولیس موبائلوں کی نمبر پلیٹس پر مٹی چپکا دی تھی۔

شو روم کے مالک کو بن قاسم تھانے میں درخواست جمع کرائے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ وہ ڈیڑھ ماہ سے انصاف کے لیے پھر رہا ہے۔ شوروم مالکان نے ایس ایس پی ملیر کو درخواست جمع کرائی تھی جس میں تمام واقعہ تحریر کیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ مدعی سمیت متعدد بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button