مقالہ جات

کیا آل رسول (ص) کے دشمن مولانا فضل الرحمٰن کی اقتداء میں نماز جائز ہے

عید الاضحیٰ کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پڑھی جانے والی شیعہ سنی افراد کی مشترکہ نماز کے بارے میں مکتب دیوبند کے مدارس کے سربراہ مفتی حنیف جالندھری کے اعتراض کے بعد شیعہ علماء کونسل کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ عارف واحدی اور ان سے وابستہ افراد بھی دیوبندی مفتی حنیف جالندھری کی حمایت کیلئے علامہ طاہر القادری کیخلاف میدان میں کود پڑے ہیں۔ روزانہ ایک نیا سوال کرکے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے جس سے ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ شیعہ اور بریلوی مسلمانوں کے اس اتحاد سے جہاں دیوبندی حضرات کو شدید دھچکا لگا ہے وہیں دیوبندیوں کی دیرینہ دوست جماعت شیعہ علماء کونسل کے عمامہ پوش افراد بھی پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جہاں مجلس وحدت سے وابستہ علمائے کرام کی کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے وہیں اس شیعہ سنی اتحاد کے عظیم الشان مظہر پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے۔

ہمارے ای میل ایڈریس پر متعدد افراد نے ہمیں اس ایشو پر ای میل کی ہیں اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ بعض افراد کی رائے کو ہم اس لئے شائع نہیں کرسکتے کہ اس میں علامہ سید ساجد نقوی مدظلہ عالی کی توہین کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے جبکہ دوسری جانب علامہ طاہر القادری کے بارے میں بھی بعض افراد نے نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ لیکن ایک سوال ایسا ہے کہ جس کو شائع کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ طاہر زیدی نے سوال کیا ہے کہ غدیر خم کے مقام پر رسول خدا (ص) کی دعا ہے کہ ’’ اے اللہ تو اسے دوست رکھ جسے علی (ع) دوست رکھتا ہے اور اس سے دشمنی رکھ جس سے علی (ع) دشمنی رکھتا ہے‘‘۔ اس دعا کی روشنی میں امام علی (ع) سے دشمنی رکھنے والے افراد خدا کے دشمن قرار پائے ہیں تو کیا خدا کے دشمن کی اقتداء میں نماز جائز ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جو کہ سرعام اہل بیت (ع) کی عصمت و طہارت کے منکروں میں سے ہیں اور غدیر کے فلسفے کے برخلاف معاویہ اور یزید کی خلافت کے قائل ہیں اور کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں تو کیا ایسے شخص کی امامت میں واجب نماز جماعت ادا کرنا جائز ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button