پاکستان

مندر کی زمین پرمدرسہ تعلیم القرآن، دیوبندی مسجد اور مدینہ مارکیٹ راجا بازار پنڈی میں تعمیر کئے گئے – روزنامہ ڈان کی رپورٹ

مندر کی زمین پرغیر قانونی قبضہ کرکے مدرسہ تعلیم القرآن، دیوبندی مسجد اور مدینہ مارکیٹ راجا بازار پنڈی میں تعمیر کئے گئے – روزنامہ ڈان کی رپورٹراولپنڈی- راجا بازار میں واقع دیوبندی مسجد، مدرسہ تعلیم القرآن اور مدینہ مارکیٹ جو کہ 10 محرم الحرام کو نامعلوم افراد کی طرف سے جلادئے گئے تھے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ متنازعہ زمین پر تعمیر کئے گئے تھے-زمین متروکہ املاک بورڑ کی ملکیت ہے

متروکہ املاک بورڑ کے ایک اہلکار نے انگریزی اخبار ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد، مدرسہ پاکستان بننے کے بعد تعمیر کئے گئے اور یہ تعمیر ایک مندر سے ملحقہ زمین پر کی گئی
فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے کہنے پر متروکہ املاک بورڑ نے مندر کی زمین کا ایک حصہ اور مدرسہ انتظامیہ کے حوالے کردیا جس سے مدرسے کی عمارت اور پھیل گئی
مندر کی پراپرٹی پر خسرہ نمبر یو-1310 اور 1310یو/اے پر مدینہ مارکیٹ کے نام سے 103 دکانیں تعمیر کی گئیں اور جبکہ 22 مزید دکانیں خسرہ نمبر 1330 یو اور 1331یو پر تعمیر کی گئیں تھیں
مندر کی زمین پر قبضہ کا یہ ایشو 1985ء میں اس وقت کے وفاقی سیکرٹری برائے مذھبی امور کے سامنے اٹھایا گیا تھا جو اب تک حل نہیں ہوسکا
محکمہ متروکہ املاک بورڑ یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اتنی زمین پر اس قبضے کے خلاف اس وقت کے آمر جنرل ضیاءالحق کے قابضین کے ساتھ گہرے تعلقات اور رشتوں کی وجہ سے خاموش رہا اور بعد میں قابض گروہ زبردست مذھبی طاقت اور پرتشدد قوت کا حامل ہوگیا تو اس کے خوفناک رد عمل کی وجہ سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی
جس وقت مسجد،مدرسہ اور مارکیٹ کو جلایا گیا تو ریسکیو حکام نے آگ والی جگہ جانے کے لیے ہملٹن روڑ والی سائيڈ سے پلازہ کی عمارت کو توڑا تو عمارتوں میں گھرے مندر کے آثار واضح ہوگئے تھے
ہندؤ کمیٹی کے جگ موہن اروڑا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس مندر کا کبھی دورہ نہیں کیا کیونکہ یہ عمارتوں کے اندر چھپا ہوا تھا اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ مندر بھی گرادیا گیا ہوگا کیونکہ 1992ء میں بابری مسجد کے واقعے کے بعد پنڈی میں 15 مندر گرائے گئے تھے
متروکہ املاک راولپنڈی کا کہنا ہے کہ اس کی ملکیت میں دو رہائشی عمارتیں اور 6 کمرشل یونٹ ہیں جن میں مدرسہ،مسجد اور کپڑے کی مارکیٹ شامل ہے
مدرسے اور مسجد اور کلاتھ مارکیٹ کا مقدمہ 1985ء سے چل رہا ہے اور یہ اب فیڈرل سیکرٹری کے پاس زیر التواء ہے
متروکہ املاک بورڑ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آصف خان کا کہنا تھا کہ مسجد،مدرسہ اور مارکیٹ متنازعہ ہیں
مدرسے کے نگران مولوی اشرف علی کا کہنا ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو ہندؤں نے ہندوستان جانے سے پہلے زمین ان کے والد مولوی غلام اللہ خان کے حوالے کرگئے تھے –ان کا کہنا ہے کہ اگر بدنیتی ہوتی تو مندر کیوں باقی رہتا
یاد رہے کہ مولوی غلام اللہ خان جوکہ دیوبندی تکفیری اور خارجی خیالات کے حامل تھے اور وہ جنرل ضیاءالحق کے اسی طرح سے بہت قریب تھے جیسے مولوی عبداللہ قریب تھے جن کو اسلام آباد میں سی ڈی اے کی جگہ پر قبضہ ضیاء الحق نے کرایا تھا اور مولوی غلام اللہ خان کو بھی آمر ضیاءالحق کی قربت نے زبردست مالی فائدہ پہنچایا اور مندر کی زمین پر قبضہ کرنے میں مدد دی

افغان جنگ کے دوران جنرل ضیاء الحق نے اسلام آباد،راولپنڈی اور دیگر شہروں میں تکفیری خارجی دیوبندی فکر کے حامل مولویوں کو سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے مسجدیں اور مدرسے تعمیر کرنے کی اجازت دی اور یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا جس سے تکفیری دیوبندی خارجی گروہ بہت طاقتور ہوا اور پاکستان میں فساد فی الارض کے قابل ہوا
آج یہ گروہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے میں سب سے آگے ہے-اس گروہ نے چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقعہ پر فیض آباد میں جس کھلی دھشت گردی کا مظاہرہ کیا اور ریاست کو چیلنج کیا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تکفیری دھشت گرد گروہ اپنے آپ کو ناجائز وسائل کے زریعے کس قدر طاقتور سمجھنے لگا ہے
مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت متروکہ املاک بورڑ کی زمین پر قابض گروہ کو نہ صرف ان کے نقصان کے ازالے کے نام پر اربوں روپیہ ادا کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے بلکہ اس متنازعہ زمین پر نئی تعمیرات کراکر قبضے کو قانونی شکل بھی دینا چاہتی ہے
تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے جب یہ سانحہ رونما ہوا تھا تو اسی وقت یہ نشاندہی کی تھی کہ یا آگ تکفیری خارجی دیوبندیوں نے خود لگوائی ہے اور اس کا ایک مقصد تو مسجد اور مدرسے کے نیچے بنی ہوئی دکانوں کے کرائے مرضی سے لینا ہیں گویا دو ناجائز قابضین کے درمیان جھگڑے کا یہ شاخسانہ تھی

متعلقہ مضامین

Back to top button