عمران خان کا طالبان دفترکا کھولنا اور عاصمہ جہانگیر کا طالبان خان کو آئینہ دکھانا
طالبان کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دینے کے حوالے سے عمران خان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوے معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن محترمہ عاصمہ جہانگیر نے نا صرف عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ان کے لا یعنی مطالبے اور بیان کی دھجیاں اڑا دیں – محترمہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان عمران خان کے والد محترم کی جاگیر نہیں کہ عمران خان صاحب کا جو دل کرے وہ کرتے پھریں – اگر عمران خان کہتے ہیں کہ انھیں جنگ نہیں امن کے نام پر ووٹ ملے ہیں ہیں تو انھیں امن لا کے دکھانا چاہیے اور اس سلسلے میں جلد سے جلد کسی حل پر پہنچنا چاہیے لیکن اس قسم کے بیان داغ کر پاکستانی قوم اور شہدا کے وارثوں کے ذہنی کوفت کا سبب نہ بنیں – محترمہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور طالبان دہشت گرد ہیں ان سے مذاکرات کے لئے اس حد تک جھک جانا بلکہ لیٹ جانا کیا پاکستانی خود مختاری کے خلاف نہیں ہے؟
محترمہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو طالبان کا دفتر کھلوانے کا اتنا ہی شوق ہے تو ان کا دفتر اپنے زمان پارک والے گھر میں کھول لیں یا وزیر اعلی ہاؤس خیبر پختون خواہ پرویز خٹک کو گھر بھیج کے ان کے دفتر میں حکیم اللہ محسود کو بیٹھا لیں اور اس سے معاملہ طے کر لیں
محترمہ عاصمہ جہانگیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان صاحب کو خود تو کسی چیز کا پتا ہے نہیں جو لوگ انسے یہ باتیں کہلوا رہے ہیں وہ اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں انھیں پتا ہے ان باتوں کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں – اور عمران خان صاحب جن سے مذاکرات کی ضد کر رہے ہیں یہ لوگ نہ پاکستان کے قانون کو مانتے ہیں نہ آئین کو – نہ اس ادارے کو جس کو جس کا عمران خان صاحب خود حصّہ ہیں مطلب پارلیمنٹ کو نہ عدلیہ کو ، اگر ان کو دفتر کھول کے دینا ہے تو پھر یہ سرے ادارے بھی ختم کرنے پڑیں گے اور طالبان کی مرضی سے پورے ملک کا نظام چلانا ہوگا کیوں کہ طالبان کی جنگ پاکستان کے آئین اور پاکستانی ریاست کے خلاف ہے