پاکستان

عثمان کرد گروپ کیخلاف کارروائی کرکے سانحہ کوئٹہ روکا جا سکتا تھا

Usman kurdشیعت نیوزمانٹرنگ ڈیسک )ایک خفیہ رپورٹ کی روشنی میں فرنٹیئر کور (ایف سی )اور پولیس کالعدم لشکر جھنگوی کے عثمان سیف اللہ کرد کے گروپ کے دہشتگرد وں کی گرفتاری کے لئے ٹھوس کوشش کرتی تو 16فروری کو کوئٹہ میں 90سے زائد ہزارہ شیعہ افرا د کا بھاری جانی نقصان روکا جا سکتا تھا۔خفیہ رپورٹ میں ان منصوبہ سازوں اور حملہ آوروں کے متعلق تفصیلات بتائی گئی تھیں جو 10جنوری کو علمدار روڈ کوئٹہ میں 2خودکش بم حملوں اور 100سے زائد شیعہ ہزارہ افراد کے چار روزہ دھرنا کے بعد صوبہ میں 14جنوری کو گورنر راج نافذ ہونے کے بعد کوئٹہ پولیس نے تیار کی تھی۔ وفاقی حکومت نے فرنٹیئر کور اور کوئٹہ پولیس کو احکامات جاری کئے تھے کہ وہ عثمان کرد اور کالعدم لشکر جھنگوی کے بلوچستان میں سرگرم ان کارکنوں کی فوری طور پر گرفتاری کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں جو کہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں شیعہ ہزارہ افراد کیخلاف دہشتگردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔خفیہ رپورٹ میں 10جنوری کو کوئٹہ میں خودکش دھماکوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈز کے متعلق واضح معلومات دی گئی تھیں جن میں ان کی تصاویر اور ٹھکانوں کے متعلق بھی بتایاگیا تھا۔بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد فرنٹیئر کور جو کہ آرمی کے ماتحت کام کرتی ہے کو مجرموں کی گرفتاری کے لئے پولیس کے اختیارات دینے کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کا بھی ذمہ دار قرار دیا گیا تھا جب کہ پولیس کو کہا گیا تھا کہ وہ ایف سی کی معاونت کرے۔بلوچستان میں کالعدم لشکر جھنگوی کے نیٹ ورک کے متعلق معلومات پر مبنی پولیس رپورٹ سے فرنٹیئر کور کو بھی آگاہ کیا گیا تھا اور یہ تجویز دی گئی تھی کہ شیعہ مخالف عناصر کیخلاف بلاتاخیر ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کر دیا جائے، صرف ایک ماہ کے مختصر وقفہ کے بعد کوئٹہ کے عملدار روڈ پر خونریز خودکش حملہ ہو گیا جس میں تقریباً 100سے زائد شیعہ ہزارہ افراد جاں بحق ہو گئے۔یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے ان اداروں کی ایک اور ناکامی کی صورت میں سامنے آیا ہے جنہیں امن و امان قائم رکھنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔نائن الیون کے واقعہ کے بعد افغانستان میں امریکی مداخلت کے تناظر میں بلوچستان میں لشکر جھنگوی کے ہاتھوں ہزارہ برادری کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔شیعہ مخالف اس تنظیم نے رواں سال اپنا سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 2013ء کے صرف 45دن میں صرف 2حملوں میں 200سے زائد شیعہ افراد کی جان لے لی، اس کے برعکس سال 2012ء کے دوران پورے بلوچستان میں 54شیعہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔کالعدم لشکر جھنگوی بلوچستان میں کھلے عام شیعہ ہزارہ افراد کو قتل کی دھمکیاں دیتی ہے اور انہیں واجب القتل (موت کا حقدار)قرار دیتی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جمع شدہ معلومات کے مطابق لشکر جھنگوی کے دو الگ ہونے والے دھڑے عثمان کرد گروپ اور شفیق الرحمان رند گروپ اپنے انسانی بم استعمال کرکے بلوچستان میں ہزارہ افراد کو نشانہ بنانے میں سرگرم ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں عثمان کرد اور شفیق رند 2008ء میں کوئٹہ کینٹ جیل سے سخت ترین سکیورٹی کے دوران فرار ہوئے تھے۔عثمان کرد کے سر کی قیمت 25لاکھ جبکہ اس کے نائب داؤد بدینی اور شفیق رند کے سروں کی قیمتیں 20,20لاکھ مقرر ہیں۔عثمان کرد اور شفیق رند دونوں کو 8نومبر 2003ء کو کوئٹہ کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس میں ان پر کوئٹہ میں 2دہشتگرد حملوں اور 65افراد کی ہلاکت کے واقعات کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزامات تھے۔داؤد بدینی القاعدہ کے سابق نمبر 3رہنما خالد شیخ محمد کا بھتیجا اور 1993ء میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر پہلا دہشتگرد حملہ کرنے کے ماسٹر مائنڈ یوسف رمزی کا برادر نسبتی ہے۔یوسف رمزی کو 1995ء میں اسلام آباد گیسٹ اؤس سے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔داؤد بدینی کو سندھ رینجرز نے 12جون 2003ء کو کراچی سے پکڑا تھا جبکہ عثمان کرد کو 22جون 2006ء کو کراچی پولیس کے تحقیقاتی یونٹ نے کراچی سے حراست میں لیا تھا۔ دوران تفتیش عثمان کرد ولد محمد نور نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ افراد پر حملوں کیلئے بڑی تعداد میں ٹارگٹ کلرز اور خودکش حملہ آوروں کو تربیت دی تھی۔ عثمان کرد نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ اس نے شیعہ امام بارگاہوں اور شیعہ مذہبی جلوسوں پردرجنوں خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کی اور اس کے ساتھ سیاسی کارکنوں، پولیس اہلکاروں اور پیشہ ور افراد کے قتل کے احکامات بھی جاری کئے۔ کرد اور بدینی گرفتار ہونے کے بعد کوئٹہ میں فرقہ وارانہ حملے عملی طور پر بند ہو گئے تھے لیکن بدقسمتی سے کالعدم لشکر جھنگوی کے دونوں افراد 18 جنوری 2008 کو وہ جیل توڑ کر فرار ہو گئے جو کوئٹہ کنٹونمنٹ کے ہائی سکیورٹی زون میں واقع تھی۔ اس واقعہ کے بعد ایک غیر جانبدار این جی او مائنارٹی سپورٹ آف پاکستان (ایم ایس پی) تنظیم جو کہ اقلیتوں کے حقوق کی حمایت میں کام کر رہی ہے نے رپورٹ جاری کی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ دونوں ملزموں کے فرار کی تمام علامات اسٹیبلشمنٹ کے سب سے اوپر سے ہونے والے انتظام کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جس رات عثمان کرد اور داؤد بدینی اپنے تیسرے ساتھی شفیق الرحمان رند (جو کہ 2003ء میں گرفتار ہوا تھا) کے ساتھ فرار ہوئے اس رات ہزارہ گارڈز کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا تھا اور جیل حکام نے غیر متوقع طور پر روسٹر تبدیل کردیا تھا۔ شفیق رند کو بعدازاں جولائی 2008 میں پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا جبکہ عثمان کرد اور داؤد بدینی مفروری کے دوران بلوچستان میں اپنے ہزارہ شیعہ مخالف ایجنڈا کو پروان چڑھاتے رہے۔ ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا ہے کہ یہ پیشگوئی کرنا انتہائی آسان ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں کس مقام پر اہل تشیع پر حملہ ہوگا۔ ایسے متعدد حملے سپینی روڈ پر واقع علاقوں میں ہوئے جو مہر آباد کوہزارہ سے ملاتی ہے اور ہزارہ سے باہر جانے والا اہم راستہ ہے جو کوئٹہ شہر کے دوسری جانب واقع ہے۔ عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ یہ امر قابل مذمت ہے کہ حملہ آور موٹر سائیکلوں پر بغیرنقاب پہنے آتے ہیں فائرنگ کرتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں اور سکیورٹی فورسز انہیں آج تک پکڑ نہیں سکیں۔ عبدالخالق ہزارہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی خصوصاً فرنٹیئر کور کی جانب سے لشکر جھنگوی کی خونریزی نہ روک پانے کے متعلق کہا کہ قاتلوں کو نہ پکڑنے سے ایسا لگتا ہے کہ بعض عناصر نے دانستہ آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بلوچستان کے کئی قوم پرست رہنماؤں نے بھی اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گورنر راج کے نفاذ کے بعد ایف سی کو اختیارات دیئے جانے کے باوجود شیعہ ہزارہ افراد کی ہلاکتیں نہ روکنا افسوس ناک ہے۔ قوم پرست رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبہ میں ایف سی کو حقیقی اختیارات حاصل ہیں جو کہ متوازی حکومت چلا رہی ہے۔ قوم پرست رہنماؤں نے ایف سی پر بلوچ کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی کو لشکر جھنگوی کے وبال پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button