پاکستان

مجلس وحدت مسلمین خارجہ امور کے سربراہ علامہ شفقت شیرازی نے کہا ہے کہ مجلس کے مخالف افراد میں برداشت اور وسعت قلبی نہیں ہے

shafqat sheraziمجلس وحدت مسلمین کے خارجہ امور کے سربراہ علا مہ شفقت شیرازی نے ایک ویب سائٹ کو انٹر ویو میں کہا کہ مجلس وحدت اختلافات کی پالیسی پر یقین نہیں رکھتی بلکہ یہ جذب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایک سوال کاے جواب میں انہوں نے کہا کہ دیکھیں کاروان کے اندر اگر جاذبیت ہو گی، اس کے اندر خوبیاں ہونگی اور ایسی چیزیں ہونگی، جس سے لوگ اسے اپنے لئے خطرہ اور شخصی انانیت نہیں سمجھیں گے، ہمارے کام کو دیکھ کر لوگ خاموش ہو جائیں گے یا ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے، بہت سے لوگ شامل نہیں ہو سکیں گے، لیکن آپ کے سامنے آنے کی ان میں ہمت نہیں ہو گی، کیونکہ عوام انہیں معاف نہیں کرے گی۔ عوامی حمایت اور عوامی طاقت کی وجہ سے آپ بڑے بڑے لیڈروں کو خاموش کروا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجلس عمل میں جو افراد شامل ہیں ان لوگوں نے اپنے کردار سے اپنا لوہا منوایا ہے، آپ حسنین گردیزی کو دیکھیں، جو بندہ 1985ء میں آئی ایس او کا مرکزی صدر تھا اور اب تک قومیات میں موجود ہے، اسی طرح باقی لوگ بھی تجربہ کار ہیں، اسی طرح ہمارے ساتھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے قم میں شہید قائد کا اس وقت ساتھ دیا جب شہید قائد کا ساتھ دینا جرم شمار ہوتا تھا۔ مولوی صاحبان انہیں قائد ماننے کے لئے تیار نہ تھے، بعد میں وہ اس حوالے سے لائے تھے کہ ہم جس طرح چاہیں گے اسے استعمال کریں گے اور بادشاہی کریں گے۔ چونکہ انہیں اردو زبان تک نہیں آتی تھی۔ لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس ہوا۔
علامہ شہنشاہ نقوی کی گفتگو سے متعلق سوال کے جواب میں علامہ شفقت شیرازی: نے کہا کہ جس نے امریکہ اور اسرائیل سے جنگ لڑنی ہے اس نے پاکستان کے اندر سیز فائر کرنا ہے، بین المسلمین اور بین المومنین کسی بھی ایشو پر اس نے جنگ نہیں لڑنی۔ جب سے ہم نے کام شروع کیا ہے ہم پر اندر سے ہر روز فائرنگ ہو رہی ہے، ہم پاکستان میں بیٹھے ہوتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایرانیوں کے ایجنٹ ہیں اور پاکستانی حکومت کو یہ بات باور کروائی جاتی ہے کہ یہ ایران کے لئے کام کر رہے ہیں، یعنی وہ پاکستانی ہیں اور ہم ایرانی ایجنٹ۔ نمائندہ ولی فقیہ علامہ ساجد نقوی کا ایران کے ساتھ کوئی تعلق ہے، نہ رہا ہے۔ جب ہم ایران جاتے ہیں تو وہاں یہ خبر سنتے ہیں کہ ان کو پاکستان کی ایجنسیاں چلا رہی ہیں۔دوسری طرف یہ کہتے تھے کہ حکومت ایران کو یہ لوگ مطلوب ہیں اور ان کے خلاف علماء و فقہا فتویٰ دے چکے ہیں۔ حال ہی میں سندھ سے علامہ شہنشاہ نقوی کا انٹرویو چھپا، اس میں اس انداز میں ہمارے دوستوں کو تعارف کروایا گیا کہ یہ لوگ علامہ ساجد نقوی کے سامنے بچے ہیں۔ انہوں نے اس انٹرویو کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ یہاں دمشق میں چہلم کے موقع پر مومنین و زائرین کے درمیان اس انٹرویو کی سی ڈی بنا کر تقسیم کی گئی۔ ہم یہاں طاقت میں ہیں، لیکن ہم نے ری ایکشن نہیں کیا۔ آج کل موسوی گروپ بھی ہمارے خلاف متحرک ہے جو پہلے بالکل خاموش تھے، اب از سرنو ان کو چھیڑ دیا گیا ہے۔
مجلس کے میدان میں آنے سے تمام لوگوں میں تحرک پیدا ہوا ہے۔؟ اس سوال کے جواب میں علامہ شفقت شیرازی نے کہا بالکل، ہم کہتے ہیں کہ پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے، ہم جیسی دس تنظیمیں بھی کام کریں تو وہاں کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
ا    یک گروہ کی جانب سے کہ ان کی ڈائریکٹ ڈائلنگ ہے رہبر معظم و سید حسن نصراللہ سے، علامہ شفقت شیرازینے کہا ان کے مرکزی لوگوں سے ہماری دوستیاں ہیں، میں شام و لبنان میں تحریک کی نمائندگی کرتا رہا ہوں، سید محمد دہلوی سے لیکر آج تک قومیات میں جتنا کام ہوا ہے اسے ہم جانتے ہیں، لیکن ان دوستوں کے اندر برداشت اور وسعت قلبی ہے، حالانکہ یہ صفت بزرگوں کے اندر ہوتی ہے، میں آپکو ایک مثال دوں، کچھ عرصہ پہلے مجمع جہانی اہلبیت ع کا پروگرام تہران میں ہوا، اس پروگرام میں علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ امین شہیدی، علامہ مبارک اور میں بھی موجود تھا۔ مجلس وحدت مسلمین کے وفد کے علاوہ آئی او کا چیئرمین آیا ہوا تھا۔ علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ افتخار نقوی صاحب، علامہ تقی شاہ صاحب، علامہ غفاری صاحب اور انکی پوری ٹیم آئی ہوئی تھی۔ تشیع کا یہ اجتماع ہر چار سال بعد ہوتا ہے، مجمع جہانی اہلبیت ع کے زیراہتمام تہران میں ہوتا ہے، جس میں 116 ممالک کی نمائندگی موجود تھی۔ یہ ایک اچھا موقع تھا کہ تشیع پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا تک حقائق پہنچائے جاتے۔علامہ ساجد نقوی مجمع جہانی اہلبیت کی مرکزی شوریٰ کے ممبر ہیں اور مجلس وحدت مسلمین کا وفد محض ایک مبصر کے طور پر شرکت کر رہا تھا۔ ہم نے ایک رائے دی، علامہ ناصر عباس جعفری نے بھی علامہ سلمان نقوی سے کہا کہ آقا صاحب آپ ہمارے بھی دوست ہیں ان کے بھی دوست ہیں۔ آپ ان بزرگوں سے جا کر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں، آئیں مل کر بیٹھیں اور کچھ مشترکہ نکات پر اتفاق کر لیں، اس کے بعد علامہ ساجد نقوی تقریر کر لیں، علامہ افتخار نقوی یا علامہ تقی نقوی تقریر کریں، ہمیں اس سے غرض نہیں ہے۔ لیکن وہاں تشیع پاکستان کی مظلومیت اور اہم مسائل دنیا جہاں کے تشیع تک ہم اچھے انداز میں پہنچا سکیں، ہمیں ایک دن کے بعد یہ جواب ملا کہ آقا صاحب آپ بہت وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن طرف مقابل کے اندر اتنی برداشت نہیں ہے۔انہوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور صاف انکار کر دیا۔
علامہ شفقت شیرازی نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اب بھی انکے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کے اندر تشیع کی نمائندگی سیاسی لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی کیا کرتی تھی، مذہبی سیاست کا رجحان نہیں تھا۔ جب مذہبی سیاست کا رجحان پیدا ہوا تو پنجاب میں یہ کام دو خاندانوں کے پاس تھا، جن کو ہماری اصطلاح میں یار شاہی اور گلاب شاہی کہتے ہیں، علامہ قبلہ یار شاہ کی اولاد میں علامہ حافظ ریاض حسین، علامہ قاضی نیاز حسین، علامہ حافظ سبطین اور علامہ حافظ ثقلین وغیرہ اس میں آتے ہیں۔ دوسری سائیڈ پر علامہ ساجد نقوی، علامہ سید تقی نقوی اور دیگر علماء کرام آتے ہیں۔ پھر علامہ شیخ محسن صاحب نے آکر تیسرا دھڑا شروع کیا، جنہوں نے پنجاب کے اندر اپنے مدارس بنائے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو شیعہ قوم کا وارث سمجھتے ہیں۔
ان لوگوں میں ایک روش ہے کہ جس کو عالم کہیں وہ عالم ہوتا ہے، جسکو جاہل کہیں وہ جاہل ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر ان کی عمریں 35 سال ہوں تو بزرگ علماء ہوتے ہیں۔ اب مثلاً میری عمر 48 سال ہے جب سے آنکھ کھولی ہے ان کے ساتھ بزرگ علماء کی اصطلاح سنی ہے۔ اپنے گھر کی اصطلاحیں ہیں، جس کو دیں۔ لیکن ادھر سفید ریش بھی ہیں، نانے اور دادے بن چکے ہیں، یہ نوجوان اور بچے ہیں۔ یہ اصطلاح عموماً استعمال ہوتی ہے۔ تحریک تحفظ تعلیمات آل محمد ص ایک زمانے میں تھی، جو تحریک تحفظ تعلیمات آل محمد ص کم لیکن علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کی تحریک زیادہ تھی، یعنی ان کا کام تھا کہ علامہ ڈھکو صاحب جو کتابیں لکھتے تھے، وہ ان کا دفاع کرتے تھے۔
اسی دوران انقلاب اسلامی ایران آتا ہے۔ اب ایک گروہ انقلاب کی حمایت کرتا ہے ایک گروہ مخالفت کرتا ہے۔ شہید حسینی کی قیادت میں یہ مسائل ختم ہو چکے تھے، شہید نے آ کر وحدت کی بات کی، لیکن دینی مدارس کے رویّے کے باعث شہید قائد کو کئی بار استعفٰی دینا پڑا اور انہیں کہنا پڑا کہ میں افغانستان میں جا کر شہید ہو جاؤں گا۔ کبھی وہ نعرہ لگاتے کہ ہم نمائندہ ولی فقیہ کو نہیں ولی فقیہ کو بدلیں گے، یہ نعرے صوبائی جعفریہ کونسل سندھ کے اجلاس میں لگائے گئے۔ اس طرح شہید پاکستان میں بالکل ہی اجنبی ہو گئے اور فکر امام رہ کو بھلا دیا گیا، بعض رہبر معظم کی مرجعیت ماننے کو تیار نہ تھے۔

اایران میں ایک عالم دین کو دیے جانے والے پروٹو کول کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ و لایت کا مقام پدری مقام ہے۔ جو پدر ہوتا ہے اس کے لئے سب اولادیں ایک جیسی ہوتی ہیں، جس نے امریکہ و اسرائیل سے جنگ لڑنی ہے اس نے اپنے عناصر میں سے کسی ایک کو بھی ضائع نہیں کرنا۔ رہبر معظم کا موقف کچھ اور ہے اور ہمارا موقف کچھ اور۔ ہمیں دیکھنا یہ چاہیئے کہ عکس رہبر کس میں نظر آ رہا ہے، کون ہمیں رہبر تک پہنچا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button