پاکستان

سپاہ صحابہ : شیعہ محرم میں سڑکوں پر نہ نکلیں

ahmed ludhyaniviسنی انتہاہ پسند گروہ سپاہ صحابہ کو حکومت پاکستان نے کوئٹہ کے شیعوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ان چندگذشتہ سالوںمیں کوئٹہ میں  سینکڑوں شیعوں کو قتل کیا گیا۔ 9سال قبل حکومت نے سپاہ صحابہ کو غیر قانونی قرار دیکر پابندی لگا دی تھی لیکن اس دیو بندوہابی ٹولے نے  اہلسنت کا نام استعمال کرنا شروع کردیاجس کی بنا پر اہلسنت تنظیموں سےتصادم کی خبریں ہم آئے دن سنتے

رہتے ہیں، اس وہابی دہشت گرد ٹولے کے شر سے اہلسنت برادران بھی محفوظ نہیں ، یہ ٹولہ کبھی اہلسنت کی مساجد پر قبضہ کرتا ہے اور کبھی ان کے عمائدین کو قتل، یہ ٹولہ نہ صرف یہ کہ شہادت نواسہ رسول ؐ پرماتم و گریہ و زاری کو بدعت گردانتا ہے بلکہ یہ ٹولہ یا رسول اللہ ؐ کہنے کو بھی بدعت و شرک قرار دیتا ہے ۔سپا ہ صحابہ کے اہداف میں سے ایک پاکستان میں انقلاب اسلامی ایران کے نفوذ کو روکنا بتایا گیا ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی فارسی کے رپورٹر ہارون نجفی زادہ نے مولانا احمد لدھیانوی سے انٹرویو کیا ، اور ابتداء میں ان سے سوال کیا کہ آپ کا شیعوں سے کیا اختلاف ہے؟
احمد لدھیانوی :  ہماری سر زمین پر ایک سازش جاری ہے پورے ملک میں جب محرم کے جلوس نکالےجاتے ہیںاگر یہ جلوس نکالنے والے چاہیں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ مملکت کو آگ لگا دینگے تو پولیس کیا کرسکتی ہے ؟مثلاً یہ کہیں کہ فلاں چیز کے بارے میں ان کا یہ مطالبہ ہےجیسے ضیاء الحق کے زمانے میں نظام زکوٰۃ وضع کیا گیا اور اہل تشیع نے اسے رد کردیا اور انہیں نتیجتاً زکوۃ سے مستشنیٰ قرار دے دیا گیا ، یہ سراسرخلاف ورزی ہے۔
سوال :  آپ نے کہا کہ ماہ محرم میں جلوس ،دراصل مظاہرہ ہے۔لیکن اہل تشیع عزاداری امام حسین ؑ کو اپنے عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں اوراس کی محدودیت کو مذہبی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں؟
احمد لدھیانوی :  اگر ان کا جلوس عبادت ہے تو میں کہتا ہوں عبادت ، عبادتخانے میں انجام دیں نہ کہ سڑکوں پر۔ میں ان کی آزادی کو سلب نہیں کرونگا۔میں صرف یہ کہتا ہوں کہ مظاہرہ نہ کریں۔
سوال:  لیکن اس سب کے باوجود آپ کے مذہب میں شیعوں کے قتل کا کیا جواز ہے ؟
احمد لدھیانوی :  میں نہ قتل پر اعتقاد رکھتا ہوں نہ اسے پسند کرتا ہوں۔ نہ قتل و غارت مسئلے کا حل ہے۔ میں نے کئی بار حکومت سے کہا ہے کہ ہمیں اور شیعوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیں۔دونوں کے موقف کو سنیں اور پھر اپنی حکمت عملی کو وضع کریں۔اگر کوئی اسے توڑے تو اسے سزا دیں ۔ ہماری جماعت کا کسی بھی جگہ ہونے والی قتل و غارتگری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال :  بعض کہتے ہیں کہ یہ انتہاپسندی صرف شیعوں کے مقابلے میںہی نہیں برتی جاتی ہے مثلاً کچھ ماہ قبل ایک شخص نےاپنے عقیدے کی دلیل کے مطابق پنجاب کے سابق گورنر کو قتل کردیا گیا۔؟
احمد لدھیانوی :  میں کہتا ہوں مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ مذہبی احساسات کے حامل ہوں ۔یہ درست ہے کہ اس گورنرکے قاتل نے قانون کی خلاف ورزی کی۔مگر دیکھیں ہمارے ہاں دو قسم کے قوانین ہیں ۔حکومتی اور اسلامی قانون اگر یہ دونوں قوانین باہم مد مقابل ہوں تو مسلمانوںکیلئے شرعی قانون ترجیح رکھتاہے۔
سوال :  آپ پاکستان میں کس قسم کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں ؟
احمد لدھیانوی :  ہم نے قیام پاکستان میں نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا۔لا الہٰ الا اللہ۔ہماری درخواست ہے جو اس نعرے میں ہے اسے قانون کے طور پر نافذ کیا جائے۔لیکن یہ نظام بھی اسلامی ہے ۔ اس ملک کی اکثریت سنیمذہب سے تعلق رکھتی  ہے ۔بنابرایں صدر مملکت ، وزیر اعظم، افواج کا کمانڈران چیف اور سپریم کورٹ کا چیف سنی ہونا چاہیئے ۔لیکن اس قسم کے نظام کا نمونہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران میں شیعہ اکثریت نے اپنے لئے ایک شیعی نظام قائم کیا ہوا ہے اور ایرانی سنی شہری شکایت کرتے ہیں کہ اس قسم کے نظام نے ان کے حقوق تلف کئے ہیں مثلاً وہ نماز عید نہیں پڑھ سکتے نہ اپنے لئے مسجد بنا سکتے ہیں۔
دیکھئے میں نے آپ سے کیا کہا کہ پاکستان میں اکثریت اہل سنت کی ہے تو قانون سنیوں کیلئے ہونا چاہیئے میں نے یہ نہیں کہا کہ کسی کا حق غصب ہو دنیا بھر میں اقلیتیں موجود ہیں ۔جس قدر اسلام نے اقلیتوں کےحقوق کا تحفظ کیا ہے اس پیمانے پر کسی دین نے نہیں کیا ہے۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایران کی اکثریت شیعہ ہے اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی ہے۔ کہ صدر ،رئیس اعلیٰ عدالت یعنی چیف جسٹس ، اسپیکر مجلس شوریٰ سارے شیعہ ہوں جبکہ سنیوں کو عام حکومتی وزارت تک نہیں دیتے ہیں۔
سوال :  جناب ایک طرف آپ ایرانی حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف مطلق سنی مذہبی نظام کی بات کرتے ہیں ؟
احمد لدھیانوی :  میں حق دینے کی بات کرتا ہوں حق سلب کرنے کی نہیں ۔ میں کہتا ہوں ایسا ہی حق ایران نے سنیوں کو دیا ہے ۔ہم پاکستان میں شیعوں کو دیں۔ مثلاً ایران میں محرم الحرام کے دوران ایک شیعہ سڑک پر بازار میں نظر نہیں آتا کہ جلوس نکالے ۔پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔پاکستان میں فساد کاایک بڑا حصہ ہی شاہراہوںپر جلوسوں کہ وجہ سے برپا ہوتا ہے اور میری تحقیق کے مطابق پاکستان میں صرف ۳فیصد شیعہ ہیں۔
یہ انٹرویو کو شائع کرنے کا مقصد اپنے قارئین کو اپ ڈیٹ کرنا تھا

 

متعلقہ مضامین

Back to top button