مقبوضہ فلسطین

فلسطین، مبصر ریاست کا درجہ مسئلے کا مستقل حل نہیں

palestaine plfقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کا درجہ بڑھا کر اسے اتھارٹی کی بجائے ایک مبصر ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔ فلسطین کی حمایت میں 138 اور مخالفت میں 9 ووٹ ڈالے گئے۔ پاکستان، فرانس اور عرب ممالک کی بڑی تعداد نے فلسطین کی حمایت کی، جبکہ امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ 41 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ فلسطین کو یہ درجہ ملنے کے بعد انٹرنشنل کریمنل کورٹ اسرائیلی مظالم کی تحقیقات کرسکے گی اور آئی سی سی نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کی مجاز ہوگی۔

یاد رہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر یاسر عرفات مرحوم کو زہر دے کر موت سے ہمکنار کرنے کے شبہات درست ثابت ہوگئے تو اسرائیل کے خلاف آئی سی سی میں مقدمہ چلایا جائیگا۔ قبل ازیں صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی ریاست کیلئے برتھ سرٹیفکیٹ جاری کرے، کیونکہ اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنا اسرائیل کے ساتھ امن کا ساتھ دینے کا آخری چانس ہے۔ ادھر اسرائیلی مبصر نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد منظور ہونے کے باوجود فلسطین کو ریاست کا درجہ نہیں ملے گا، بلکہ اس کیلئے کی جانے والی کوششوں کو بری طرح نقصان پہنچے گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے رائے شماری کے اعلان کے بعد برطانیہ نے اس میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا، جبکہ جرمنی کی طرف سے رائے شماری کی مخالفت کی گئی۔ اس حوالے سے برطانیہ نے فلسطین کو مبصر ریاست کا درجہ دینے پر اسے دو ریاستوں کا نام دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ فلسطین کا کوئی پائیدار اور مستقل حل نہیں، جہاں تک فلسطینی عوام پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانیوالے مظالم کا تعلق ہے تو کم و پیش تمام مسلمان ممالک ان کی شدید مخالفت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی تائید و حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔
 
اس حوالے سے یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے اسرائیل نے معاہدہ کیمپ ڈیوڈ اور معاہدہ اوسلو کو کوئی اہمیت نہیں دی اور آج تک ہر دو معاہدوں پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آنے پائی، حالانکہ اسرائیل نے ان معاہدوں کے حوالے سے ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا اور فلسطینی عوام کی طرف سے ان معاہدوں پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا، لیکن اسرائیل نے ان معاہدوں کو عملی شکل دینے کی بجائے فلسطینی عوام پر وحشیانہ مظالم میں اضافہ کرنے کی پالیسی جاری رکھی اور اسکی ریاستی تنصیبات جن میں متعدد سرکاری دفاتر، ٹی وی سٹیشن، کئی ہسپتال اور فلاحی ادارے شامل تھے، انہیں تباہ کر دیا اور غزہ کی پٹی کو محصور کرنے کا عمل جاری رکھتے ہوئے اسکے نواح میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی رفتار تیز تر کر دی۔

دوسری جانب فلسطینی عوام کو مصر میں بھی داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ مصر کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد فلسطینی عوام کو امدادی سامان پہنچانے کیلئے ماضی کی طرح اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا گیا، چنانچہ ایک موقع پر ایران کی طرف سے محصور فلسطینی عوام کیلئے امدادی سامان کی ترسیل روک دی گئی۔ حالیہ دنوں میں غزہ پر اسرائیلی فضائیہ کی بمباری کا سلسلہ بے گناہ اور نہتے فلسطینی عوام کے وحشیانہ قتل کی ایک بدترین مثال ہے اور ایک ہفتے کے دوران ایک سو سے زائد فلسطینی مسلمان جن میں متعدد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں شہید ہوچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد سات سو سے تجاوز کر چکی ہے جن کے علاج معالجہ کے لئے ہسپتالوں میں بھی کوئی گنجائش نہیں۔
 
اس حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم کا یہ کہنا پوری مہذب دنیا کی توہین ہے کہ ہم غزہ کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ اس وقت غزہ کی صورتحال قیامت صغریٰ کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ ہزاروں بے گناہ فلسطینی عوام خوراک اور علاج معالجہ کی سہولت سے محروم ہوچکے ہیں۔ شہید اور زخمی ہونیوالے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ بھی سراپا احتجاج ہے، گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقد ہ ڈی ایٹ کانفرنس میں بھی فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ مظالم کی مذمت کی گئی۔

اچھا ہوتا کہ امریکہ واحد عالمی سپر پاور کی حیثیت سے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم رکوانے میں کردار ادا کرتا۔ اس سے دنیا بھر کے مظلوم، محکوم اور پسماندہ عوام کو نیا حوصلہ ملتا اور امریکہ کے لئے دوستانہ جذبات میں اضافہ ہوتا۔ اس کے برعکس جب اسرائیل کے دفاع کے حق کے نام پر اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرنے سے اجتناب کا تاثر ابھرے گا تو فلسطینی مسلمانوں، عرب دنیا اور مسلم امہ سمیت تیسری دنیا کے لئے کوئی حوصلہ افزاء مثال سامنے نہیں آئے گی۔

اقوام متحدہ کی طرف سے بھی اگر فلسطینی شہریوں پر بمباری کا نوٹس لیا جاتا تو اس سے تمام مظلوم اقوام اور دنیا بھر کے پسے ہوئے عوام کو امید افزا پیغام ملتا۔ اس پس منظر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ فلسطینی ریاست کی حمایت نہ کرنے والے مغربی ممالک کو بھی ادراک کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے زندہ رہنے کے حق کیلئے آواز بلند کرنی چاہئے تھی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ میں امریکہ نے فلسطینی مسلمانوں کی آزادی اور خود مختاری کے حق کو تسلیم کرنے کا تاثر دیا تھا۔ اسے اسرائیل سے اس معاہدے کی پاسداری کرانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ تاکہ مشرق وسطٰی میں غیر یقینی کیفیت کے خاتمے میں مدد ملے اور تمام ممالک کیلئے اپنی حدود میں زندہ رہنے، پنپنے اور ترقی کرنے کی راہ ہموار ہو۔

اس وقت عالمی سطح پر 57 کے لگ بھگ آزاد مسلمان ممالک اور ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی موجودگی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی بقاء و سلامتی اور اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسلامی ممالک کی ایک فعال تنظیم کو اپنے وسائل کی تعمیر و ترقی کیلئے بروئے کار لائیں اور جہاں بھی کسی مسلمان ملک یا اقلیت پر ظلم ڈھایا جائے اسے روکنے کے لئے مکمل اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس وقت جبکہ کرہٴ ارض کے امن کو کئی وجوہ سے خطرات درپیش ہیں، عالمی برادری کو عالمی امن کے مفاد میں فلسطین اور کشمیر سمیت ہر اس مقام پر اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہئے، جہاں خود ارادیت سمیت بنیادی حقوق کی پامالی سے سنگین خدشات جنم لے رہے ہیں۔
"روزنامہ جنگ”

متعلقہ مضامین

Back to top button