مقبوضہ فلسطین

ممکنہ جنگ بندی اورفلسطینیوں کاموقف

plf newsفلسطین کےمنتخب وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے اعلان کیاہے کہ اگرصیہونی حکومت جنگ بندی کی پابندی کرےگی تو فلسطینی گروہ بھی اس کی پابندی کریں گے۔
فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ غزہ کے شفا اسپتال میں فلسطینی زخمیوں کی عیادت کے دوران فلسطینی مزاحمت تنظیموں کے اتفاق رائے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ فلسطینیوں کو صہیونی فوج کے حملوں کا جواب دینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
اسماعیل ہنیہ نے تفصیلات بیان کئے بغیر صہیونی فوج کے حملے رکوانے کے لئے بعض علاقائی کوششوں جزوی سی علاقائی کوششوں کی طرف اشارہ کیا اور صہیونی فوج کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا: قابضوں کے یہ حملے ملت فلسطین کے عزم کو کمزور نہيں کرسکتے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کو روکنے کے لئے فلسطینیوں کی پامردی اور استقامت کو کمزور نہيں کرسکتے۔
دریں اثناء غزہ میں تعینات فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے بھی ایک اجلاس میں مزاحمت کو فلسطینیوں کا قانونی حق قرار دیا اور ممکنہ جنگ بندی کو صہیونی حملے روکنے سے مشروط کیا۔
فلسطین کے مزاحمت تنظیموں نے ایک بیان جاری کیا تھا جو حماس کے ترجمان سامی ابوزہری نے پڑہ کر سنایا۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ: صہیونی ریاست، فلسطینیوں کے خلاف بار بار جرائم کے ارتکاب اور ان کے نتائج کی ذمہ دار ہے اور جب تک صہیونی فوج کے حملے رک نہيں جاتے اس وقت تک مزاحمت تنظیمیں منہ توڑ جواب دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اس بیان میں عالمی برادری سے اسرائیلی حملے رکوانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ممکنہ جنگ بندی کے سلسلے میں فلسطینیوں کا مشروط اتفاق ایسے حال میں انجام سامنے آیا ہے کہ گذشتہ چند دنوں سے فلسطینیوں کی مزاحمت جاری ہے اور انھوں نے پوری طاقت سے صہیونیوں کو کا مقابلہ کیا ہے جبکہ صہیونی ریاست نے کبھی بھی جنگ بندی کی پابندی نہيں کی ہے اور اس نے جنگ بندی کو بھی ہمیشہ ہی ایک چال کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
صہیونی ریاست نے فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں جنگ بندی کو اپنے لئے موقع حاصل کرنے اور فلسطینیوں کے خلاف دوبارہ جارحیت کرنے کے لئے ایک وسیلہ سمجھا ہے؛ چنانچہ یہ ریاست کسی بھی جنگ بندی اور کسی بھی امن منصوبے کی پابند نہیں رہی ہے تا ہم موجودہ حالات میں جب صہیونی ریاست کو غزہ پر حملے کامنہ توڑجواب مل رہا ہے، وہ اپنی پوزیشن خطرے میں دیکھ رہی ہے لہذا بعض صہیونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر بھرپور حملے کے پروگرام کے ساتھ ہی جنگ بندی کا بھی جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہيں۔
صہیونی حکام کے بیانات میں تضاد نے جنگ بندی پر یقین نہ رکھنے اور اس طرح کے الفاظ و بیانات سے صہیونی ریاست کے تشہیراتی فائدہ اٹھانے کے ارادے کو پہلے سے زیادہ نمایاں کردیا ہے۔
اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ پوری آمادگی اور عزم کی حالت میں جنگ بندی کے لئے ہونے والی کوششوں سے فلسطینیوں کاراضی ہونا جنگ بندی کے لئے علاقائی اور عالمی کوششوں کے سلسلے میں فلسطینیوں کی نیک نیتی کا ثبوت ہے لیکن جنگ بندی کے سلسلے میں صہیونی ریاست کامنہ زوری کا رویہ ایسا ہے جس پر فلسطینی گروہوں نے رد عمل ظاہر کیا ہے اور فلسطینیوں نے جنگ بندی کے ہر طرح کے طریقۂ کار کو صہیونی ریاست کی جانب سے جنگ بندی اور اس کی شقوں کی پابندی سے مشروط کردیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button