لبنان

لبنان: شیبا فارم بم حملے اسلامی مزاحمت کا کارنامہ تھا، سید حسن نصر اللہ

hasan nasrula intervewحزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے حالیہ دنوں لبنانی روزنامے ’’السفیر ‘‘ کو دئیے گئے ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ مارچ کے مہینے میں جنوبی لبنان اور شام کے درمیان شیبا فارمز پر ہونے والے حملوں میں اسلامی مزاحمت حزب اللہ کا کارنامہ تھا، واضح رہے کہ شیبا فارمز پر گذشتہ دہ دہائیوں سے زائد عرصے سے غاصب اسرائیل کا قبضہ ہے،۔
شیعت نیوز کی مانیٹرنگ ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کو جناتا نامی مقام پر اسرائیلی حملے کا جواب دایا ہے ، حزب اللہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو جب چاہے نشانہ بنانے کی قابلیت رکھتی ہے۔سید حسن نصر اللہ کاکہنا تھا کہ یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اسرائیل کو اپنے ساتھ مشغول رکھا جائے لیکن ضروری بات یہ ہے کہ اسرائیلی دشمن کو واضح ہونا چاہئیے کہ حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور قابلیت رکھتی ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ کاکہنا تھا کہ صیہونی دشمن نے جناتا پر حملہ کرنے کو موقعہ غنیمت جانا تھا کیونکہ حزب اللہ شام میں اسرائیلی حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے تاہم صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ جناتا پر حملہ کر کے حزب اللہ کو نقصان پہنچائیں گے اور مزید علاقے پر تسلط قائم کریں گے لیکن حزب اللہ کی قابلیت سے نا واقف ہیں ۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ جب ہم نے لبونیہ میں بم کو نصب کیا تو ہم صیہونی دشمن کو پیغام دینا چاہتے تھے، ہم ہر گز مشغولیت کے اصول کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،کبھی بھی کوئی بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو اور کاروائی کرے اور چلا جائے ، ایسا ممکن نہیں ہے۔سید حسن نصر اللہ کاکہنا تھا کہ اسرائیل مزاحمت کی اس کاروائی کے بعد حزب اللہ پر بڑے پیمانے کی کاروائی کرنے کی منصوبہ بندی کرر ہا ہے اور جدید ترین معیاری ہتھیاروں کا استعمال کرے گا اور مستقبل میں کسی بھی گھر، عمارت یا کسی بھی جگہ پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔لیکن حالیہ واقعات میں اسرائیل حزب اللہ کے سامنے دباؤ کا شکار ہے اور بالخصوص حزب اللہ کا شام میں دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کا سلسلہ صیہونی دشمن کے لئے شدید پریشان کن ثابت ہو رہاہے۔
ان تمام تر واقعات اور معاملا ت کے رونما ہونے کے بعد اسرائیلی سوال اٹھا رہے ہیں کہ حزب اللہ کے ساتھ ماضی کے معرکوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیل کیا کرے گا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کی نظر Galilee نامی علاقے پر ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے اسرائیل نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے لیکن اسلامی مزاحمت حزب اللہ نے اسرائیل کو نہ صرف روک دیا بلکہ مزاحمت کے نتیجے میں ایسی کاروائیاں انجام دی ہیں جس سے اسرائیلی صفوں میں شدید پریشانی لا حق ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ لبنان کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ ہمیں سپورٹ کریں یا نہ کریں لیکن حالات و تجربات نے بتایا ہے کہ ایسے لوگوں نے بھی حزب اللہ کو شام میں دہشت گرد تکفیریوں سے مقابلہ کرنے پر حمایت کی ہے جو خود حزب اللہ کے خلاف بنائے جانے والے چودہ مارچ اتحاد کے حامی ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ شام پر خطرات کے بادل چھٹ چکے ہیں لیکن چند مغربی اور عربی حکومتیں دہشت گردوں کو مالی اور مسلح مدد فراہم کر رہی ہیں تاہم کچھ عرصے تک شام کی صورتحال غیر مستحکم رہے گی۔ان کاکہنا تھا کہ گذشتہ تین برس کی جد وجہد کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جائے تو شامی حکومت ایک لمحے کے لئے بھی کمزور نہیں ہوئی ہے اور یہی تکفیریوں کی شکست اور مزاحمت کی کامیابی کا اعلان ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے انٹر ویو کے دوران بتایا کہ آخر شامی حکومت او ر بشارا لاسد کو کیوں ہٹانے کی کوشش کی گئی ؟ کیونکہ دشمن نے بشارا لاسد سے کہا کہ ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرو، حزب اللہ کے ساتھ تعلقات بھی ختم کرو، اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لو، اور اسرائیلی یہودی آباد کاری کو فلسطین میں قبول کرو،لیکن بشار الاسد نے ان سب باتو ں کا جواب نفی میں دیا، سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں ایسی عرب ریاستوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے خفیہ طور پر بشار الاسد سے مذاکرات کئے اور بھاری مقدار میں مالی تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے وہ سارے مطالبات کئے جو امریکہ کر رہا ہے ،سید حسن نصر اللہ نے ماسکو کی جانب سے شام کی مثبت مدد پر روس کے کردار کو سراہا۔
سید حسن نصر اللہ نے گذشت برسوں میں عرب بیداری کی لہر کے بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تیونس، مصر اور لیبیا سمیت خطے میں شروع ہونے والی عرب اور اسلامی بیداری کی لہر ان ممالک کے عوام کی طرف سے اور جوانوں کی طرف سے شروع ہوئی تھیں تاہم یہ خود عرب ریاستوں کے لئے حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ یورپ اور مغرب کے لئے بھی انتہائی حیرت انگیز تھا۔تاہم ان بیداری کی تحریکوں میں سب سے اہم مسئلہ درست قیادت کا فقدان تھا جس کے باعث کچھ جماعتوں اور گروہوں نے ان بیداری کی تحریکوں پر اثر انداز ہوکر بیداری کی تحریکوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکیوں کے نزدیک عرب بیداری کے نام پر سعودی عرب کو تقسیم کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ہے اور گفت وشنید کا عمل جاری ہے جبکہ فرانس اور برطانیہ سر فہرست ہیں جو سعودی ریاست سمیت دیگر عرب ریاستوں کو تقسیم کرنے کی اس گفتگو اور منصوبہ بندی کا جز ہیں۔
سید نصر اللہ نے شیبا فارمز پر اسرائیلیوں پر ہونے والے حملے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیبا فارمز پر اسرائیلی افواج پر حملہ حزب اللہ کا کارنامہ ہے جسے پہلے حزب اللہ نے طویل مدت تک آشکار نہیں کیا تھا اور یہ اسرائیل کو جناتا پر حملہ کرنے کا جواب تھا ۔سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حزب اللہ ہر گز میڈیا پر آ کر اعلانات کرنے اور ذمہ داریاں قبول کرنے کی پالیسی نہیں رکھتی البتہ حزب اللہ کی یہ نئی حکمت عملی ہے کہ مزاحمتی کاروائی کو مناسب وقت آنے پر بیان کیا جائے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حزب اللہ سنہ 2006ء کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ طاقتور اور با صلاحیت ہو چکی ہے اگر چہ حزب اللہ شام کے محاذ پر بھی میدان جنگ میں موجود ہے تاہم حزب اللہ کی صلاحیتوں پر کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑا ہے بلکہ حزب اللہ زیادہ طاقتور ہو رہی ہے۔سید حسن نصر اللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف کسی بھی قسم کی جنگ کرنے کی کوشش کی تو اسرائیل کو بد ترین شکست کا مزہ چکھائیں گے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ خود اسرائیل اتنا کمزور ہو چکا ہے وہ حزب اللہ کے خلاف کسی بھی جنگ کا آغاز کرنے کی قوت نہیں رکھتا اور اگر ایسا ہے تو چیلنج کرتاہوں کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دے، جو کہ وہ نہیں کر سکتا۔
ترجمہ : شیعت نیوز ٹیم

متعلقہ مضامین

Back to top button