لبنان

مقاومت سے دوری جنون اور خودکشی ہے، کامیابی یا شہادت تک اپنا جہاد جاری رکھیں گے، سید حسن نصراللہ

syed hasan nasrullaحزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ شہداء کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ کامیابی یا شہادت تک مقاومت، صبر، ثابت قدمی اور وحدت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ شب لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی علاقہ ضاحیہ میں سید الشهدا (ع) ہال میں یوم شہید کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ مقاومت سے دوری جنون اور خودکشی ہے، ان کا کہنا تھا کہ بعض افراد شیعہ اور سنی کو لڑانے کیلئے فتنہ انگیزی کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اس پروگرام میں بھرپور شرکت پر شرکاء کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ مقام شہداء کی خصوصی طور پر تجلیل ہونے چاہیئے، کیونکہ انہوں کی خدا کی راہ میں اپنی جان فدا کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ شہید احمد قصیر نے 11 نومبر 1982ء کو صھیونی حکومت کے سیاہ دن میں تبدیل کر دیا، شہید احمد قصیر صھیونی حکومت کے خلاف پہلی اور اہم ترین کارروائی انجام دی۔ یہ صھیونی حکومت کے خلاف شہادت طلبانہ کارروائیوں کا نقطہ آغاز تھا، اس لئے اس دن کو یوم شہید کے عنوان سے منایا جاتا ہے اور اسی دن ہی 2000ء اور 2006ء میں اسلامی مقاومت کی کامیابیوں کی بنیاد رکھ دی گئی۔

سید حسن نصراللہ نے اس شہادت طلبانہ کارروائی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائی کا آغاز شہادت طلبانہ کارروائیوں کے سالار احمد قصیر نے کیا، ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ میں نے پچھلے سال اس دن کی مناسبت سے کہا تھا کہ مقاومت اسلامی لبنان کی طرف سے صھیونی حکومت کے خلاف یہ سب سے بڑی کارروائی تھی اور آج بھی یہ عرب اور اسرائیل جنگ کی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شہادت طلبانہ کارروائی نے اسرائیل کے ساتھ جنگ اور اس کے حکام کے چہروں کی رنگت کو تبدیل کر دیا تھا اور اس دن سے ہی اسرائیل کی شکست اور مقاومت اسلامی کی  کامیابیوں کا آغاز کر دیا تھا۔
 
 حزب اللہ کی تیس سالہ تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ حزب نے ان گذشتہ سالوں میں ہونے والے حادثات اور واقعات سے استفادہ کیا ہے کیونکہ گذشتہ تجربات اور حادثات کی روشنی میں ہی بہتر اور روشن مستقبل کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ حزب اللہ اپنے اس ماضی کو بھول جائے، لیکن حزب اللہ اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ سید حسن نصراللہ نے واضح کیا کہ مقاومت کی مختلف اور متعدد نسلوں میں تجدید ہونی چاہیے اور یہ اسکی  قدرت اور سربلندی کا باعث ہے، لیکن بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہم اپنا ماضی بھلا دیں، لبنانی اور عربی بھی اپنے ماضی کو فراموش کر دیں، انہوں نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ حکومت کا تختہ الٹ دیں اور مقاومت کی فورسز کو غلام بنا لیں۔

حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ مقاومت کے پروگرام کے بارے بات کروں، یہ  مقاومت کے بارے میں شہداء کا منصوبہ تھا۔ میں تاکید کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مقاومت کے سلسلے میں ہم اپنی فعالیت اور وطن کے دفاع کے لئے تمام فیلڈز میں اپنی طاقت اور صلاحیت میں اضافے اور پیشرفت کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اس سلسلے میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کریں گے، انکا کہنا تھا کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ اس خطے میں ہونے والے اتفاقات اور ان کے بارے میں ہونے والے اظہار نظر سے ہمارے ارادے کو کمزور کر دے گا۔ انکا کہنا تھا کہ ہم اپنے مستقبل سے بہت پرامید ہیں اور آج ہم اس نقطہ پر پہنچ چکے ہیں کہ مقاومت کے دشمن نے بھی ہماری صلاحیتوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میرے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ لبنان کے اندر کوئی اس بات کا اعتراف کرے یا نہ کرے، لیکن 33 روزہ جنگ کے بعد دشمن  نے مقاومت کی طاقت کا اعتراف کرلیا ہے۔

اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت عوام اور اقوام کے ردعمل سے ڈرتی ہے لیکن اسے حکومت اور حمکرانوں سے کوئی خوف نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ عرب لیگ نے غزہ، سوڈان یا میانمار کے لئے کیا اقدام کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اجازت دیں کہ میں ایک اور مثال دوں۔ جب اسرائیل نے خرطوم پر حملہ کیا تو عرب لیگ اور سلامتی کونسل کہاں تھی؟ اس کارروائی پر ان کا ردعمل کیا تھا؟ ہر روز سننے میں آ رہا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے لیکن بیانیہ جاری کرنے کے علاوہ کیا اقدام کیا گیا ہے؟ بین الاقوامی، عربی اور اسلامی ادارے کہاں ہیں؟ حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میں لبنانیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پچھلے 30 سال میں ہونے والے واقعات کو اپنی نظر میں رکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا چیز اسرائیل کی عقب نشینی کا باعث بنی ہے اور یہ وہ تجربہ ہے جس سے ہم لبنانی گزرے ہیں۔

سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ دیکھیں اس وقت کون سے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غزہ پر ہر روز بمباری کی جا رہی ہے، درجنوں افراد شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ ان واقعات پر ردعمل دکھانے کے لئے عرب لیگ کہاں ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم بھی عرب لیگ کے ردعمل کے منتظر رہتے تو آج اسرائیل لبنان میں بھی یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہوتا۔ او آئی اسی اور عرب لیگ کہاں ہیں؟ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یہ بہار عربی والے ممالک کے لئے ایک آزمائیش ہے کہ وہ غزہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف کیا ردعمل دکھاتے ہیں۔

 بحرین میں ہونیوالے واقعات کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جب بحرین میں بم پھٹا تو اس کا الزام بھی ہم پر لگایا گیا، انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہماری انگلیوں کے نشان وہاں بھی پہنچ گئے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ بحرینی حکومت اپنے پرامن مخالفین کو قتل، قید اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لئے بہانے تلاش کر رہی ہے اور آج ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ بحرینی حکومت نے اپنے ہی کچھ شہریوں کی شہریت کو باطل کر دیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم لبنان اور خطے کے عوام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ لبنان، غزہ اور شام میں ہونیوالے واقعات کے بارے میں بصیرت اور آرامش کا مظاہرہ کریں اور اس بات کو جان لیں کہ آج ہم فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فتنوں کے دور میں ہمیں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا ہوں گے، تاکہ ہم اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں۔
 
شام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شام کے بحران کا سیاسی حل نکالا جائے اور قتل و غارت گری کے سلسلے کو روکا جائے اور یہی راہ حل شام اور شامی عوام کے حق میں بہتر ہے۔ لیکن دیکھیں کہ مخالفین حالات کو کس طرف لے کر جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے شام کے تمام مخالفین کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جمع کیا ہے، تاکہ جو کچھ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن چاہتی ہیں، اس کی بنیاد پر ان سب کو متحد کیا جائے اور اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ شام کے تمام مخالف گروہوں نے دوحہ میں مذاکرات کو رد کر دیا ہے اور قتل و غارت اور ویرانی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے سوال کیا کہ کیا مذاکرت شامی عوام کے حق میں ہیں یا قتل و غارت گری کا جاری رہنا۔؟

دیگر ذرائع کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے گذشتہ شب بیروت میں یوم شہید کی مناسبت سے منعقدہ ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج، حزب اللہ اور قوم کا اتحاد روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید احمد قصیر نے 1982ء میں صہیونی فوجیوں پر جو شہادت پسندانہ حملہ کیا تھا وہ صہیونی حکومت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ کا ایک بڑا حملہ شمار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ 1982ء میں شہید احمد قصیر نے صیہونی حکومت کے خلاف ایک شہادت پسندانہ حملہ کیا تھا، جس میں ایک سو اکیاون سے زائد صہیونی ہلاک ہوگئے تھے۔ سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو ختم کرنے میں امریکہ کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، اسرائيل اور چودہ مارچ نامی لبنانی گروہ نے حزب اللہ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین میں ڈرون طیارہ بھیجے جانے کو حزب اللہ کی طاقت اور دفاعی صلاحیتوں کی علامت قرار دیا اور کہا کہ صہیونی حکومت نے ہماری اس توانائی کا اعتراف کرلیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button