لبنان

ایک لبنانی ذریعے کا دعوی: امام موسی صدر معدوم قذافی کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہيں

shiitenews imam mossa saderایک لبنانی ذریعے نے دعوی کیا ہے کہ قذافی نے شیعیان لبنان کے قائد امام موسی صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران ان کے ساتھ بحث و جدل کا راستہ اپنایا اور جب امام موسی صدر نے قذافی کے توہین آمیز ریمارکس کا جواب دیا تو اس نے انہیں دو گولیاں مار کر شہید کردیا۔
لبنان میں ایک باخبر ذریعے نے نام فاش نہ ہونے کی شرط پر اسلامی جمہوری خبر رسان ادارے ارنا کو بتایا کہ لیبیا میں ہونے والی تحقیقات

سے معلوم ہوا ہے کہ امام موسی صدر کئی روز تک لیبیا میں مقیم رہے اور ایک دن قذافی مسلح ہو کر ان کے قیام گاہ میں حاضر ہوا اور ان سے دوبدو ملاقات کی۔
لبنان کے اس باخبر سرکاری اہلکار نے مزيد بتایا کہ قیام گاہ کے باہر جو لوگ موجود تھے وہ قذافی اور امام موسی کے درمیان ہونے والے مجادلے کی صدائیں بخوبی سن رہے تھے جب اچانک کمرے کے اندر سے گولی چلنے کی آواز سنائی دی اور اس کے بعد امام موسی صدر کسی کو نظر نہیں آئے۔
بہت سے سیاسی مبصرین کی رائے کے مطابق اگر امام موسی صدر زندہ ہوتے اور قذافی کی کسی جیل میں بند ہوتے تو ابھی تک قطعی طور پر رہا ہوچکے ہوتے یا ان کے انجام کے بارے میں کوئی خبر مل ہی جاتی۔
دوسری جانب سے لبنانی حکام نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران نیویارک میں لیبیا کی عبوری کونسل کے اراکین سے ملاقات اور بات چیت کی ہے اور انھوں نے لبنانی حکام کو بتایا کہ انہیں امام موسی صدر کی حیات پر مبنی کوئی کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔
اسی حال میں حزب اللہ لبنان نے لیبیائی ڈکٹیٹر کی سرنگونی اور لیبیا کے عوامی انقلاب کی کامیابی کے سلسلے میں اپنے پیغام میں عبوری کونسل اور لیبیا کے عوام کو مبارک باد دی ہے اور عبوری کونسل سے امام موسی صدر کے بارے میں مکمل اور قابل قبول تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر حزب اللہ نے لیبیا میں ڈکٹیٹر قذافی کی ہلاکت کے بعد امام موسی صدر کے بارے میں تحقیقات کی غرض سے ایک وفد لیبیا روانہ کردیا ہے جبکہ حزب امل نے بھی اس سے قبل اسی غرض سے ایک وفد لبیبا بھجوادیا تھا۔ وہ امام موسی صدر اور ان کے تین ساتھیوں کے بارے میں تحقیق کریں گے۔
حزب اللہ لے اپنے پیغام میں امام موسی صدر اور ان کے ساتھیوں کے اغوا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: ہم لیبیا کے حکام سے مطالبہ کرتے ہيں کہ اب جبکہ صہیونیت کے مفاد میں سب کـچھ کر گذرنے والے نظام حکومت سرنگون ہوگئی ہے اور ڈکٹیر ہلاک کیا جاچکا ہے وہ ایک بار پھر لبنانی مزاحمت تحریک کے امام، امام موسی صدر اور ان کے دو ساتھیوں شیخ محمد محمود اور عباس بدرالدین کے مقام حبس کے بارے میں تحقیقات نئے سرے سے انجام دے جنہیں سابقہ ڈکٹیٹر نے محض صہیونیوں کے مفاد میں قید کرلیا تھا۔
دوسری جانب سے لبنانی روزنامے الجمہوریہ نے باخبر ذرائع سے حوالے لکھا ہے کہ حزب اللہ کی طرف سے ایک وفد کل (بروزجمعہ) تیونس کے راستے سے لیبیا پہنچ گیا ہے جو نئی حکومت سے امام موسی صدر اور ان کے دو ساتھیوں کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی اطلاعات کی صحت و سقم کے بارے میں بات چیت کرنا چاہتا ہے۔
لبنان سے ایک سرکاری وفد بھی نائب وزیر خارجہ "ہیثم جمعہ” کی سربراہی میں لیبیا کے دورے پر ہے جس نے لیبیا کے حکام اور عبوری کونسل کے اعلی اراکین سے بات چیت کی ہے۔ یہ وفد امام موسی صدر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کے نتائج پر لیبیائی حکام سے تبادلہ خیال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امام موسی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 1978 میں معدوم معمر قذاقی کی سرکاری دعوت پر لیبیا کے دورے پر گئے تھے اور اس وقت سے اب تک پوری دنیا ان کے انجام سے بے خبر ہے۔
اور ان کے بارے میں کوئی خبر شا‏ئع نہیں ہوئی ہے۔
تاہم بعض ذرا‏ئع کا خیال ہے کہ ابھی تک امام موسی صدر اور ان کے ساتھیوں کی حیات کے امکانات موجود ہیں لیکن لبنان اور ایران میں انتہائی ذمہ دار حکام اس حوالے سے کسی مثبت پیشرفت کی توقع نہیں رکھتے۔
دریں اثناء امام موسی صدر کے مغوی ساتھی کے بیٹے اور لبنانی پارلیمان کے سابق رکن ‘حسن يعقوب’ نے کہا ہے کہ لیبیا کی آمریت کی سرنگونی کے بعد امام موسی صدر کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ امام موسی صدر زندہ ہوں اور اگر شہید ہوگئے ہیں تو اہل بیت (ع) اور عالم اسلام کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جس کو پانے کے لئے ایسی شخصیات بے چین رہتی ہیں۔ اور پھر وہ سید و عالم دین اور لبنانی مزاحمت تحریک کے بانی ہیں اور اسرائیل کو ذلیل کرنے کے حوالے سے حزب اللہ اور مزاحمت تحریک کی لبنانی اور فلسطینی تنظیموں کی عظیم کارکردگی امام موسی صدر کی مرہون منت ہے۔
………………………….

متعلقہ مضامین

Back to top button