دنیا

فوج اور سکیورٹی اداروں پر حالیہ خودکش حملوں کے بعد طالبان کیساتھ مذاکرات پر قومی قیادت تقسیم

talisطالبان سے مذاکرات پر سیاسی مذہبی جماعتیں تقسیم ہو گئیں، ڈائیلاگ کے لئے دوبارہ اے پی سی بلانے کو وقت کا ضیاع قرار دے دیا، جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی ہے جبکہ جماعت اسلامی مذاکرات سے انکاری اور آئین تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جے یو آئی (ف) کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ امن صرف مذاکرات سے ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔ باضابطہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل اسے ناکامی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قبائلی عوام کو اعتماد میں لے اور مذاکرات کے لئے باقاعدہ فورم تشکیل دے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے قومی اتفاق رائے قائم ہوا تھا، اب معلوم نہیں کہ فوجی طاقت کے استعمال کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں۔ جب بھی مذاکرات کا مرحلہ آتا ہے خفیہ ہاتھ سرگرم ہو جاتے ہیں اور مذاکرات کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے کچھ گروپ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے لئے کام کرتے ہیں، آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔

شیعہ علماء کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ معلوم نہیں حکومت کس سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ 65 گروپوں میں سے 33 مذاکرات سے انکاری ہیں، عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ قوم کو ہر قیمت پر امن چاہیے۔ اب حکومت کو آئین تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف بھرپور طریقے سے آپریشن کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ ملک میں قصاص کے قرآنی قانون کو معطل کر دیا گیا، اگر آج ملک میں قصاص کا قانون ہوتا تو دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ پی پی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ طالبان، مذاکرات کو حکومت کی کمزوری سمجھ رہے ہیں، لہذا حکومتی عمل داری اب ناگزیر ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ حکمران طالبان کیخلاف کارروائی کرنے کی بجائے اس کینسر کو ملک کے طول و عرض میں پھیلا رہے ہیں، وطن عزیز کے غیور اور محب وطن عوام دہشت گرد اور اُن کی حامی قوتوں کو پاک سرزمین پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اس ملک دشمن گروہ طالبان کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کریں۔

ادھر کالعدم تحریک طالبان نے فروری اور مارچ میں بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملوں کی تیاری مکمل کر لی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں نے وزارت داخلہ کو خبردار کیا کہ کالعدم تحریک طالبان ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ جس سے بروقت نمٹنے کے لئے تمام سکیورٹی اداروں کر ریڈ الرٹ کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ خفیہ اداروں نے تحریک طالبان کے امیر کی ٹیلی فون کال ٹریس کی ہے، جس سے پتہ چلا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان آنے والے دنوں میں دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں نے وزارت داخلہ کو متنبہ کیا کہ ان حملوں کو روکنے کے لئے، دہشت گردوں کی نشاندہی اور گرفتاری کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں، بصورت دیگر ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ فوج اور سکیورٹی اداروں پر حالیہ خودکش حملوں کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات پر قومی قیادت تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت پہلے ہی یہ کام قومی قیادت کے سپرد کرچکی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button