دنیا

حملہ آور دہشت گردوں کی بجائے شیعہ عالم دین پر مقدمہ

انڈونیشیا کے علاقے سورابایا کے واقعات میں نقصان اٹھانے اور لاپتہ ہونے والوں کے لئے تشکیل یافتہ کمیشن نے الزام لگایا ہے کہ انڈونیشی indonishiaحکومت نے سمپانگ کے علاقے میں شیعہ اقلیت پر دباؤ بڑھانے کے لئے وہابیوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ شیعیان اہل بیت (ع) کی املاک تباہ کرنے والے وہابیوں کی بجائے ظلم کا نشانہ بننے والے شیعہ عالم دین شیخ تاج الملوک پر بے بنیاد الزامات لگا کر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔
ی رپورٹ کے مطابق سورابایا میں”کانتراس” کے واقعے میں نقصان اٹھانے اور لاپتہ ہونے والوں کے لئے تشکیل یافتہ کمیشن نے الزام انڈونیشی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ وہابیوں سے مل کر سمپانگ کی شیعہ اقلیت کو تنگ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ شیعہ املاک اور اموال کو نیست و نابود کرنے والے وہابیوں کی بجائے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے شیعہ عالم دین شیخ تاج الملوک پر مقدمہ چلانے کے لئے عدالت قائم کی گئی ہے اور ان پر بے جا الزامات لگائے گئے ہیں جبکہ مظلوم شیعہ عالم دین کو وکیل کی سہولت بھی حاصل نہیں ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق شیخ تاج الملوک پر مقدمے کی سماعت کے پہلے سیشن میں ان پر منفی تبلیغ اور مقدسات کی توہین کا الزام لگایا گیا اور اگر یہ الزام ثابت کیا جاسکے تو انہیں پانچ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ جبکہ حکومت اور وہابی عناصر نے ان الزامات کو ثابت کرنے کے لئے پہلے سے انتظام کررکھا ہے۔
علاقائی اٹارنی "سوسپیٹو” نے شیخ تاج الملوک پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے شاگردوں سے کہا ہے کہ موجودہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے کا قرآن نہیں ہے اور اس کو تبدیل کیا گیا ہے اور یہ کہ حقیقی قرآن امام مہدی علیہ السلام کے پاس ہے۔
واضح رہے کہ تحریف قرآن کا عقیدہ شیعہ علماء نے ہزاروں بار مسترد کیا ہے اور تحریف قرآن کے عقیدے کو قرآن کی صریح آیات سے متصادم قرار دیا ہے جبکہ اہل سنت میں سے بھی کئی لوگ قرآن میں تحریف کے قائل ہوئے ہيں لیکن شیعیان اہل بیت (ع) ان چند افراد کے اعتقاد کو سنی عقیدہ قرار نہيں دیا کرتے اور پھر شیعیان عالم کے گھروں اور مسجدوں میں رکھے ہوئے قرآن کے لاکھوں نسخوں کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ بڑا آسان ہوجاتا ہے کہ کیا شیعیان آل محمد ـ جو رسول اللہ (ص) کے حکم پر قرآن و اہل بیت (ع) کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور علم کے حقیقی منابع یعنی علی اور آل علی علیہم السلام کی پیروکاری کا اعزاز  رکھتے ہیں ـ کسی خیال کتاب کے قائل ہیں یا ان کا قرآن وہی ہے جو دوسرے مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں میں پایا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں تحریف کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے؛ لنک دیکھئے:

قرآن ہر قسم کی تحریف سے مبرّا ہے

ہاں! شیعہ اعتقادات میں اعتقاد ضرور شامل ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے پاس مصحفِ فاطمہ (س) ہے جو جبرائیل نے املاء کیا ہے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام نے لکھا ہے اور اس میں دنیا میں قیامت تک رونما ہونے والے تمام اہم واقعات ثبت ہوئے ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ہے بلکہ قرآن وہی ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور پھر شیعہ تفاسیر قرآن بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہابیوں کی یہ ہرزہ سرائی ہرزہ سرائی ہے کہ اہل تشیع کا قرآن الگ ہے۔
بہر صورت انڈونیشیا کی دینی عدالت کے جج "پورنومو امین کہیو” نے اعلان کیا کہ اگلی سماعت منگل کو ہوگی اور شیخ تاج الملوک کو اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ شیخ تاج الملوک کو اپنا مقدمہ خود لڑنا پڑ رہا ہے اور انہيں وکیل رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
سماعت کے خاتمے پر وکیل کے بغیر مقدمہ لڑنے پر مجبور شیعہ عالم دین شیخ تاج الملوک کو شدید حفاظتی اقدامات میں جیل منتقل کیا گیا جبکہ عدالت کے ارد گرد پولیس کی بڑی نفری تعینات تھی۔
پولیس نے دعوی کیا ہے کہ شیخ تاج الملوک کی گرفتاری کا سبب یہ ہے کہ ان کی تعلیمات علاقے کی اکثریتی آبادی میں اشتعال پید کررہی ہیں!۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ محرم الحرام سے اب تک علاقے میں شیعہ اقلیت کو تنگ کرنے کی تمام تر کوششیں عمل میں لائی گئی ہیں اور شیخ تاج الملوک سمیت درجنوں شیعہ مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ 29 دسمبر 2011 کو "اومین” اور "سمپانگ” کے علاقوں میں "انگکرنانگ” اور "کرم گائم” نامی قصبوں میں انتہا پسند وہابیوں کے ہاتھو شیعیان اہل بیت (ع) کے گھروں اور املاک کو نذرآتش کئے جانے کے بعد، مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
نقصان اٹھانے اور لاپتہ ہونے والوں کے لئے تشکیل یافتہ کمیشن نے اپنے ثبوتوں کی بنیاد پر اعلان کیا ہے کہ بعض علاقے کے بعض سرکاری اہلکار بھی انتہا پسند وہابیوں کے ساتھ قریبی تعاون کررہے ہیں اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ جاوہ کے مشرقی علاقے کی شیعہ اقلیت پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔
کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے شیعہ اقلیت کے اموال و املاک کو تباہ کرنے والے وہابیوں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے ظلم کا نشانہ بننے والے شیعیان انڈونیشیا کے خلاف یکطرفہ اقدامات کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ مقامی سرکاری اہلکار وہابیوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button