داعش اور النصرہ کے درمیان اختلافات سعودی عرب کے لئے خطرہ بن گیا۔
یوں توآج کل شام میں تکفیریوں کے امیروں کے درمیان اختلافات حوالے سےبہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں جبکہ خاص طور سے "النصرہ فرنٹ” اور تنظیم داعش کے درمیان تواختلافات عروج پر ہیں۔ یوں تویہ دونوں القاعدۃ کی اشتعال انگیز فکر سے متاثر ہیں لیکن پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کاخون بہائے نیز ایک دوسرے کے ماننے والے شہریوں کو قتل کریں۔اب دہشت گردوں کے لئے شامی عوام کا خون بہت ہی سستا ہوگیا ہے اورتکفیریوں کے ان برے اعمال سے تمام رسائل جرائد اور میڈیا واقف ہے اور یہ داعش اور النصرہ کے ایک دوسرے کے اوپر الزامات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ آخر میں القاعدہ کے سرابراہ ایمن الظواہری کویہ کہنا پڑا کہ داعش کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
"داعش” اور”النصرة” کے شام میں:اختلافات اورأهداف
داعش اور النصرہ دونوں الگ الگ تنظیمیں ہیں اول الذکر کے مقاصد میں ایک اسلامی مملکت کا قیام ہے جو شام کے مشرقی علاقے سے ترکی کے جنوب اور اس طرف عراق کی سرزمین کا شامل کرکے، جبکہ دوسرا موجودہ شامی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے جس کے لئے وہ فوج سمیت حکومت کے حامی افرادکو قتل کرتے ہیں۔ یہ بات ایک شامی محقق حسام شعیب نے "العھد اخبار” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔
ان کے مطابق داعش کا مقصد مسلح افرادکو نام "نہادجھاد”کی طرف راغب کرناہے جو ایک اسلامی وطن کا قیام کرے جہاں خاص{اپنے مخصوص نظریات پر مبنی} دینی احکامات کا نفاذ کرے۔ وہ کہتا ہے کہ اس طرز حکومت کو ہم شام کے صوبے ” الرقہ” وغیرہ میں شروع کرکے دیکھ لیا۔ جبکہ داعش ان سے مختلف نظرآتے ہیں جس کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ القاعدہ کےتمام دہشت گردوں کو افغانستان،عراق اور پاکستان سے لا کرسرزمین شام میں جمع کرے تاکہ شامی حکومت کا تختہ الٹا جاسکے جو القاعدہ کے اہم منصوبوں میں شامل ہے، شعیب کانظریہ سوشیالوجی کے استاداوراسلامی تنظیموں کے ماہر عبدالغنی عماد کے نظرئے سے مطابق نظرآتا ہے وہ کہتا ہے النصرۃ کا القاعدہ کے ساتھ رابطہ اس وقت سامنے آیا جب ایمن الظواہری نےیہ کہا کہ دراصل النصرۃ شام کے اندر القاعدہ کی ایک شاخ ہے۔
النصرہ اور داعش کے اعلان جنگ کے حوالے سے اختلافات:
اس اعلان جنگ نے ان دونوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا کیے۔ اس حوالے سے عمادنے "العھد” کو بتایا کہ ان اختلافات میں شدت اس وقت آئی جب داعش کے کمانڈر ابوبکرالبغدادی نے ایمن الظواہری کے ایک خط کے جواب میں کہا تھا۔ کہ ہم شرعی مواخات{بھائی چارے} کے خواہاں ہیں اور القاعدہ کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اس کو نہیں مانتے بلکہ ولایت اور بیعت کے ذریعے زمین خدامیں دین خدا کا قیام چاہتے ہیں۔
عماد نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ القاعدہ افغانستان اوردیگرتمام جگہوں میں ناکام ہوگیا ہے ۔ لہِذا اس حکم کے نفاذ کے لئے حکومت کفر کے مقابلے میں جھادی منصوبے کا ہونا ناگزیر ہے تاکہ احکام خداکا اجرا ہوسکے جو اگر دیکھا جائے تو القاعدہ کے بنیادی اصولوں میں کہیں درج نہیں ہے ۔
آخرمیں شعیب نے کہا کہ اس وقت داعش القاعدہ کے لئےسب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ داعش پیچھے مڑ کر اپنے سپورٹرزخاص طور سے خلیجی ممالک پر ہی دھاوابول نہ دے کیونکہ خلیجی ممالک اور سعودی عرب داعش کو اس شرط پر مالی مدد کرتے تھے کہ وہ اعتدال کے ساتھ مقاومت کرے،جبکہ داعش کے مطابق وہ دونوں اب اسلامی حکومت کا قیام نہیں چاہتے ہیں اور حق کی نصرت کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اس لئے سعودی عرب اب ان دہشت گرد تنظیموں سےخطرہ محسوس کرنے لگا ہے لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ ریاض "المارضہ المعتدلہ”{مقاومت معتدلہ}کو اس لئے مدد کرتا تھا تاکہ وہ شام میں جاری جنگ کی توسیع کرے اوران کامنصوبہ یہ تھا کہ وہ ان دہشت گرد تنظیموں کے ذریعےسے شام کا بٹوارا کرے تاکہ وہ کمزورہوجائے۔
رپورٹ/محمدکسراونی
ترجمہ: محمدتقی صابری