سعودی عرب

بندر بن سلطان کا دورہ امریکہ: طبی معاینہ یا ساز باز

bander amricaلبنان کے ایک اخبار نے سعودی عرب کے وزیر اطلاعات کے علاج کے بہانے امریکہ کے حالیہ دورے کو مشکوک قرار دیا ہے۔ لبنان کے اخبار ” الاخبار” نے اپنے تجزئیے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کے وزیر اطلاعات کا حالیہ دورہ اگرچہ علاج معالجے کے حوالے سے میڈیا میں آیا ہے لیکن با خبر زرائع کا کہنا ہے کہ یہ دورہ بندر بن سلطان کا اپنے عہدے سے ہٹنے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دورے کے حوالے سے عرب میڈیا میں بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے انٹیلیجنس زرائع بار بار کہہ رہے ہیں کہ بندر بن سلطان ایک ضروری آپریشن کے لئے امریکہ جا رہے ہیں لیکن ان خبروں پر کوئی اعتماد نہیں کر رہا۔ کہا جا رہا ہے کہ بندر بن سلطان کی گذشتہ چند سالوں کی کارکردگی کی وجہ سے خارجہ سیاست میں سعودی عرب کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس وقت صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سعودی عرب کو علاقے میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کا سب سے بڑا حامی تصور کیا جا رہا ہے۔ تجزئیہ نگاروں نے شام کے حوالے سے بندر بن سلطان کی پالیسیوں اور سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے بندر بن سلطان نے جس طرح خطے اور دوسرے ممالک سے دہشتگردوں کو شام میں اکھٹا کیا اور جس طرح اس نے القاعدہ کے گروہوں کو شام میں منظم اور مسلح کیا اس پر عالمی طاقتیں بھی پریشان ہیں۔ الاخبار میں شائع ہونے والے اس تجزئیے میں آیا ہے کہ دنیا بھر سے دہشتگردوں کی شام آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ یورپی ممالک کی خفیہ تنظیمیں اور انٹیلیجنس سروسز بھی شام کا دورہ کر چکی ہیں اور ان گروہوں سے ملاقات بھی کر چکی ہیں۔ جنیوا ٹو کانفرنس نزدیک ہونے کی وجہ سے بعض عرب اور یورپی ممالک نے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں لیکن سعودی عرب نے اس کے بر عکس سفارتی حل کے خلاف اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں اور انکے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ وہ شام کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر سکیں۔ لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کا خواہشمند ہے۔ کیونکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ریاض پر دہشتگرد گروہوں کی حمایت اور دیگر خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے شدید اندرونی اور بیرونی تنقید کا سامنا ہے۔ الاخبار کے مطابق لبنان میں سعد حریری کی جانب سے ایسی حکومت میں شامل ہونے پر رضا مندی کا اظہار کئے جانا کہ جس میں حزب اللہ بھی شامل ہو بندر بن سلطان کے لئے ایک بہت بڑی سفارتی شکست ہے۔ انہی دلائل کی بنا پر سعودی عرب نے لبنان، شام اور عراق کے حوالے سے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنا دی ہے اور ان ممالک کے سلسلے میں پلاننگ کے اختیارات بندر بن سلطان اور وزیر خارجہ سعود الفیصل سے لے کر اس نئی کمیٹی کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ اخبار کے مطابق ایران کے حوالے سے جنیوا جوہری سمجھوتہ نیز ایران اور روس کے قریبی تعلقات کے حوالے سے بعض اہم رپورٹیں سعودی عرب کے فرماںروا تک پہنچی ہیں جس پر شاہ عبداللہ کی جانب سے سعودی انٹیلی جنس اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی ناگزیر نظر آتی ہے۔ الاخبار کے کالم نویس اپنے تجزئیہ میں لکھتے ہیں کہ ان تمام دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح نظر آ رہی ہے سعودی عرب کے وزیر اطلاعات کے حالیہ دورہ امریکہ میں سعودی وزارت کارجہ اور اطلاعات جیسی وزارتوں میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی اور بندر بن سلطان اور سعود الفیصل کو اپنی وزارتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ الاخبار کے مطابق بندر بن سلطان نے سعودی عرب کی ساکھ کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اذالہ ممکن نہیں ہے۔ اگر بندر بن سلطان اپنی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہیں تو خطے اور عالمی سیاست شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا نے حکومتی ڈھانچے بالخصوص سیکیورٹی اور خارجہ امور میں بڑی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور بندر بن سلطان کا حالیہ دورہ امریکہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button