سعودی عرب

سعودیوں نے طرابلس میں بھی دہشت گرد تنظیم "الاحرار” تشکیل دی!

bander5رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے اسرائیل کی خدمت کی غرض سے شام کے بہت سے شہروں کو تباہ کرنے کے بعد لبنان کے شمالی شہر طرابلس میں بھی ایک دہشت گرد تکفیری تنظیم "الاحرار” تشکیل دی ہے جس کا نعرہ ہے: "اہل سنت میں اسلحہ و دفاع کی وحدت”؛ جس کا اہل سنت سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے لیکن ایک طرف سے علاقے میں واحد تکفیری فوج کی تشکیل کی سعودی کوشش کا حصہ ہے اور دوسری طرف سے اسرائیل کو مزاحمت محاذ کی مزاحمت سے بچانے اور لبنان میں حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ ڈالنا سعودیوں کا ہدف ٹہرا ہے۔
آل سعود کے انٹیلجنس ادارے کے سربراہ اور دہشت گردی اور قتل و غارت کے حوالے سے بدنام زمانہ سعودی شہزادے بندر بن سلطان نے شام میں اپنے حمایت یافتہ گروپوں کو "جیش الاسلام” نامی دہشت گرد تنظیم کے سانچے میں متحد کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ لبنان میں بھی دہشت گردوں کو متحد کرنے کی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے طرابلس میں موجود دہشت گردوں کو اکٹھا کرکے ایک تنظیم میں منظم کیا ہے جس کا نام الاحرار رکھا گیا ہے گوکہ اس تنظیم کی مکمل رونمائی نہيں ہوئی ہے۔
طرابلس ایک سنی اکثریتی شہر ہے اور بندر بن سلطان نے لبنان کو تباہ کرنے کا آغاز اسی شہر سے کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودیوں کے لئے شیعہ یا سنی یا عیسائی وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ وہ تو اسرائیل کی مخلصانہ خدمت کو اپنا مطمع نظر سمجھتے ہیں کیونکہ لبنان میں بھی وہ اپنے اہداف کی خاطر شیعہ اور سنی کے درمیان جنگ کا آغاز کرانا چاہتے ہیں اور نئی تنظیم کی تاسیس کا مقصد یہی ہے اور پھر سعودیوں کے زیر سرپرستی گروپوں کو شام میں مسلسل ہزیمتوں کا سامنا ہے چنانچہ بندر بن سلطان نے جھڑپوں کو شمالی لبنانی شہر میں منتقل کیا ہے جہاں اب تک 14 افراد جاں بحق بھی ہوئے اور بڑی سطح پر تباہی ہوئی ہے۔
نئی تنظیم میں شامل افراد وہی ہیں جنہوں نے طرابلس کے علوی محلے "جبل محسن” اور سنی محلے "باب التبانہ” میں شدید جھڑپوں کا آغاز کیا تھا۔ اس گروہ کا سربراہ لبنانی قومی سلامتی فورس کا سابق سربراہ "اشرف ریفی” ہوگا جو سعودی حمایت یافتہ دھڑے "المستقبل” دھڑے سے وابستہ ہے۔
لبنانی اخبار نے البتہ فاش کیا ہے کہ ریفی نے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ہی بندر بن سلطان کی مالی امداد سے یہ گروپ تشکیل دیا تھا اور اس گروپ کو سعودی حمایت حاصل ہونے کے حوالے سے شواہد اور دستاویزات بھی موجود ہیں کیونکہ آل سعود کی حکومت نے لبنان اور شام کا کیس بندر بن سلطان کے سپرد کیا ہے۔ گوکہ عراق میں بھی تخریبکاری کی سرپرستی بندر بن سلطان ہی کررہے ہیں۔
الاخبار کے مطابق ریفی پر "بندری نوعیت” کی عنایت خاصہ البتہ المسقبل دھڑے کے اندر دوسرے افراد کے حسد کا سبب بنی ہے کیونکہ آل سعود نے المسقبل دھڑے کی حمایت کے باوجود سعد الحریری سے منہ موڑ لیا ہے اور اگلی حکومت میں وزارت عظمی کے لئے آل سعود کا نامزد امیدوار بھی اشرف ریفی ہی ہے!
یہ حسد ان لوگوں میں بھی رسوخ کرگیا ہے جو ریفی کی حمایت کرتے ہيں لیکن انہیں حریری کے سلامتی کے مشیر کرنل حمود کی حمایت حاصل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حمود بھی ریفی کا حامی نہيں ہے۔
سب سے پہلی جھڑپ 10 ستمبر 2013 کو اس وقت حمود کے حامی محمد مبسوط (ابو عذاب) کے گروپ اور ریفی کے حامی ابو علی جوہر کے گروپ کے درمیان اس وقت ہوئی جب ریفی کے حامیوں نے بار الرمل میں ریفی کی ایک تصویر لٹکائی۔ اس کے بعد "ابناء خط الواحد” اور "الصراع علی الزعامہ” نامی گروپوں کے درمیان بھی شدید جھڑپیں ہوئیں جو درحقیقی حمود اور ریفی کے درمیان لڑائی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جس کے بعد المسقبل دھڑے کے سربراہ سعد الحریری نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر فضیل الف کو المسقبل سے وابستہ فوج، پولیس اور سیکورٹی فورسزے کے ریٹائرڈ اہلکاروں کے درمیان ثالثی کے لئے مقرر کیا۔ جس کے بعد ریفی نے اپنی دہشت گرد تنظیم کو سرگرم رکھا اور حمود نے بظاہر ریفی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا لیکن عملی طور پر اس کے خلاف اپنی تشہیری مہم جارہی رکھی کیونکہ ریفی نے بھی حمود کی فورسز کو بھی لالچ اور دھمکیاں دے کے اپنی طرف مائل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
ذرائع کے مطابق ریفی شام کی حامی تنظیموں اور حزب اللہ کی نگرانی کرنے اور ان کا محاصرہ کرنے کے سلسلے میں معین المرعبی اور خالد الضاہر کے ساتھ تعاون کا خواہشمند ہے۔ یہ دو افراد عکار کے علاقے سے لبنانی پارلیمان کے اراکین ہیں اور طرابلس کے دہشت گردوں میں ان کے متعدد حامی پائے جاتے ہیں۔
تاہم جبل محسن اور باب التبانہ میں ہونے والی جنگ کے سلسلے میں ریفی نے بعض خصوصی محافل میں طرابلس کے اراکین پارلیمان کی عدم حمایت کا شکوہ کیا ہے اور محمد کبارہ، سمیر الجسر، مصباح الحدب اور مصطفی علوش پر تنقید کی ہے کہ یہی افراد طرابلس میں المسقبل دھڑے کی فورسز کی پسپائی کا سبب بنے ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ ایسے افراد ان کے متبادل کے طور پر سامنے لائے جائیں جو بقول اس کے "طرابلس کے عوام کے وقار کے محافظ بن سکیں”۔
قابل ذکر ہے کہ طرابلس ایک پرامن شہر ہے لیکن سعودی حمایت یافتہ ریفی اور اس جیسے لوگ اس شہر میں خون اور آگ کا کھیل کھیل رہے ہیں جس سے حقیقتا طرابلس کے عوام کا وقار مجروح اور ان کا امن و سکون برباد ہورہا ہے۔
ریفی کی تنقید کا اشارہ کبارہ کے ٹیلی ویژن چینل سے نشر ہونے والے ان کے بیان کی طرف تھا جس میں انھوں نے لبنانی فوج سے اپیل کی تھی کہ وہ طرابلس میں آہنی مکا استعمال کرکے امن قائم کرے۔ ادھر ریفی نے کبارہ کے اس بیان پر اپنے خصوصی حلقوں میں رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "کیا ابو العبد اپنے شہر کے باشندوں کا تحفظ کرنے کے بجائے ایسی فوج کے ذریعے آہنی مکا استعمال کرے گا جو مکمل طور پر بےاختیار ہے؟
مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ لبنانی فوج کا سابق میجر جنرل اشرف ریفی باب التبانہ اور جبل محسن میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے خاتمے کا خواہاں نہیں ہے بلکہ "رفعت عید” کو ناقابل فراموش سبق سکھانے پر اصرار کررہا ہے چنانچہ اس سے کبارہ کی رہائشگاہ پر ہونے والی نشست میں شرکت کرنے سے انکار کیا اور محاذ جنگ میں موجود اپنے ماتحت افراد کے ساتھ ملاقاتوں پر اکتفا کیا۔
الاخبار نے لکھا ہے کہ ریفی نے ان افراد کو عسکری حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے اور بظاہر وہ سب ریفی کے ساتھ بلاواسطہ طور پر رابطے میں ہیں۔ ان افراد میں محمد خ. سمیر، م. عماد ر، حاتم ج اور اور القبہ کے محلے سے شامی نوجوان زیاد ص المعروف ابومصعب المعروف زیاد العلوکہ شامل ہیں۔
ریفی نے "اہل سنت میں اسلحہ و دفاع کی وحدت” کے نعرے کے اور سعودی ریالوں کے ذریعے التبانہ میں کئی غیر اہم چھوٹے گروپوں کے اپنے ساتھ ملایا۔ اس نے شدت پسند سلفیوں کے نمائندے کی حیثیت سے شیخ کمال بستانی کے دست راست شیخ حسام صیادی سے رابطہ برقرار کیا اور اس کا یہ عمل کبارے کی شدید ناراضگی کا سبب بنا چنانچہ انھوں نے اپنے دوستوں سے کہا ہے کہ یہ جنگ ریفی کی جنگ ہے کیونکہ وہ لبنانی عوام میں اپنی فوجی قوت کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔
ریفی نے عامر اریش اور سعد المصری کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا ہے تکہ وہ نجیب میقاتی کی حمایت ترک کرکے اس کی حمایت کریں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ المصری نے میقاتی کی درخواست پر حالیہ جنگ میں مداخلت کرنے سے انکار کیا ہے۔
ادھر طرابلس کے میدان جنگ سے بھی بعض ذرائع کی رپورٹ کے مطابق ریفی سے وابستہ بعض گروپ لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسرے علاقوں میں امن و سکون نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ زيادہ تر گروپ اس لئے اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں کہ وہ غداری کے الزام سے بچنا چاہتے ہیں کیونکہ الجبل عوامی اتحاد کی علامت ہے۔
ذرائع کے مطابق جب تک جبل محسن میدان جنگ ہوگا اور آل سعود کے حکم پر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف جنگ بشار الاسد کے خلاف جنگ سمجھی جاتی رہے گی، تو یہ نام نہاد مجاہدین اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی زحمت ہرگز نہيں اٹھائیں کے اور اپنا جہاد جاری رکھیں گے کیونکہ التبانہ میں اپنے گھر کی چھت سے جہاد کچھ زیادہ مشکل بھی نہيں ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button