سعودی عرب

آل سعود نے یہودی ـ اسرائیلی کمپنی کو حج سیکورٹی کی ذمہ داری سونپ دی

israil-saudiaرپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر اس واقعے کا انکشاف سعودی اخبارات نے کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ کمینی برطانیہ میں رجسٹر ہوئی ہے۔
یہ کمپنی یہودی ریاست "ہاشمیرا” کہلاتی ہے اور آل سعود کی وزارت حج کے ساتھ معاہدے کے بعد سعودی عرب میں "المجال” کہلائے گی اور اس کا ہیڈ کوارٹر ساحلی شہر جدہ میں ہوگا۔
سعودی ذرائع نے کہا ہے کہ سعودی حکومت نے اس کمپنی کو حجاج کرام کے امن و امان کے تحفظ کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔
سعودی ذرائع کے مطابق اس کمپنی کو "G4S” بھی کہا جاتا ہے اور قبل ازیں مقبوضہ فلسطین میں بعض یہودی ـ صہیونی چیک پوسٹوں پر تعینات ہے۔
ان ذرائع نے کہا ہے کہ یہ کمپنی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے مصروف عمل ہے ہے۔ اسرائیل میں اس کمپنی کا نام ہاشمیرا اور سعودی عرب میں المجال اور اس کا مرکز جدہ میں ہے۔
G4S نامی کمپنی وہی ہے جو فلسطینیوں کا محاصرہ سے تنگ سے تنگ تر کرنے میں کردار اد کرتی ہے اور قبلہ اول پر یہودی قبضے کو استحکام پہنچانے میں پیش پیش ہے اور قبلہ موجود کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کی مزید مقدس سرزمین میں داخل ہوئی ہے لیکن اس بار برطانیہ کی مدد سے نہیں بلکہ آل سعود کی مدد سے وہ ان مسلمانوں کا تحفظ (!) کرے گی جو قبلہ اول کی آزادی کے خواہاں ہیں۔ اب قبلہ اول کے غاصب قبلہ موجود میں عبادت کے لئے مسلمانوں کا تحفظ کریں گے! خدائے یکتا کی پرستش کا امکان فراہم کریں گے!
یہ وہ کمپنی ہے جو دنیا کے خطرناک ترین ممنوعہ ہتھیار صہیونی ریاست کو فراہم کرتی ہے تاکہ ان سے استفادہ کرکے مسلمانان فلسطین کو کچلا جاسکے اور مغرب میں بعض مسلم اور غیر مسلم کارکنوں نے اس موضوع کو آل سعود اور اسرائیل کے جرائم میں شمار کیا ہے اور ان سے عالمی اداروں میں بازخواست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ وہی کمپنی ہے جو مقبوضہ فلسطین میں صہیونی نوآبادیوں کا تحفظ کرتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بدنام زمانہ بلیک واٹر کے مترادف ہے۔
G4S دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے سرگرم عمل ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں ہاشمیرا کے نام سے، سعودی عرب میں المجال کے نام سے اور دوسرے ممالک میں دوسرے ناموں سے۔
نیوز ویب سائٹ "اسرار عربیہ” نے پیش تر ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اس کمپنی اور سعودی حکومت کے درمیان مفاہمت ہوچکی ہے اور وہ 2013 میں حجاج بیت اللہ کے تحفظ لئے اس ملک میں تعینات ہوگی اور اس کمپنی نے ایک اشتہار بھرتی کے لئے بھی شائع کیا تھا جس میں صرف حج کے سات دنوں کے لئے بھرتی پر زور دیا گیا تھا۔
اس ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ حج کے انتظامات اس صہیونی کمپنی کا مرکزی دفتر ـ جو لندن میں واقع ہے ـ سنبھال رہا ہے۔
اس کمپنی کے اندرونی جرائد نے فاش کیا ہے کہ "جی 4 ایس” کو مشن دیا گیا ہے کہ تیس لاکھ سے زائد حجاج کی نقل و حرکت اور رہائش کی سہولیات کو اپنے ذمے لےلے۔
اس سلسلے میں "مسجد الاقصی کے دوستوں کی تنظیم” نے لندن میں آل سعود کے سفیر "محمد بن نواف آل سعود” کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ جی 4 ایس کمپنی فلسطینیوں کو کچلنے میں صہیونی ریاست کا ہاتھ بٹارہی ہے اور رکاوٹیں کھڑی کرنا، چیک پوسٹ قائم کرنا اور مسلمانوں کی پرتشدد انداز سے تلاشی لینا، اسی کمپنی کے ہاتھ میں ہے اور یہ کمپنی مسلمانان فلسطین پر مسلط کردہ مصائب اور تکالیف کی ذمہ دار ہے اور لوگوں کی نقل و حرکت میں صہیونی نسلی امتیاز کو ملحوظ رکھتی ہے۔
مغربی ذرائع بھی تصدیق کرتے ہیں کہ "جی 4 ایس” کمپنی ملت فلسطین کی سرکوبی میں براہ راست طور پر ملوث ہے اور کئی بین الاقوامی تنظیموں نے اس کے غیرانسانی اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے اس کا بايکاٹ کررکھا ہے۔
محمد بن نواف آل سعود کے بھجوائے گئے کھلے خط میں اس کمپنی کے بعض کرتوتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں اس نے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو پامال کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اس کمپنی کے وہ اقدامات ہیں جنہيں کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا چنانچہ ہمارا سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں آل سعود کی حکومت نے کیونکر اس کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے ہیں؟ اور اب تو یہ سوال اور بھی سنجیدگی کے ساتھ ابھر چکا ہے کہ سعودی حکمران فلسطین اور مسجد اللاقصی پر صہیونی اور یہودی قبضے کے کیونکر مخالف ہوسکتے ہيں؟ کیا آل سعود فلسطین کی آزادی کے بارے میں سنجیدہ ہے؟
اس خط میں لکھا گیا ہے: ہم اس بات پر راضي ہیں کہ آل سعود کی حکومت انٹیل کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کمپنی صہیونی ریاست کی حمایت کرتی ہے لیکن چونکہ اس کمپنی کا کوئی نعم البدل عالم اسلام میں نہيں پایا جاتا چنانچہ ہم بھی اس بات پر راضی ہوسکتے ہیں لیکن سیکورٹی کمپنیوں کی عرب دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے اس کے باوجود اگر آل سعود کے حکمران یہ مشن صہیونی کمپنیوں کے سپرد کرے اور مسلمان حجاج کے تحفظ کی ذمہ داری اس کمپنی کے حوالے کرے ـ جبکہ یہ کمپنی فلسطینی مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ممنوعہ ہتھیار اسرائیل کے سپرد کرتی ہے اور اسی کمپنی کے فراہم کردہ اوزاروں کو استعمال کرکے یہودی حکومت ہمارے مسلم فلسطینی بھائیوں کو ٹارچر کرتی ہے ـ تو بے شک یہ ایک خیانت اور غداری ہے امت مسلمہ کے ساتھ۔
ویسے تو سعودی عرب کی ظاہری خارجی پالیسی غاصب یہودی ریاست کو تسلیم نہ کرنا، ہے اور اسرائیلی پاسپورٹ کے حامل افراد کو سعودی عرب میں داخل نہيں ہونے دیتا اور یہ حکومت 1948 اور 1973 کی جنگوں میں عربوں کے ساتھ تھی لیکن سعودی بازاروں میں اسرائیلی مصنوعات بوفور پائی جاتی ہیں۔
یہودی ـ صہیونی ریاست کی برآمدات کے تھنک ٹینک کے کے سربراہ ڈیویڈ آرٹزی نے حال ہی میں صہیونی اخبار "یدیعوت احارونوت” سے کہا ہے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ بہت فعال تجارتی تعلقات رکھتے ہیں اور اسرائیلی مصنوعات ایک واسطے کے ذریعے سعودی عرب پہنچتی ہیں۔
اس کے علاوہ بھی سعودی عرب اور صہیونی ریاست کے درمیان مختلف سطوح پر تعاون جاری ہے اور اس وقت وہ اسرائیل کے نمائندے کے طور پر شام میں ایک نیابتی جنگ میں مصروف ہے اور مزاحمت محاذ کے اگلے مورچے یعنی شام کے خلاف گندی اور غلیظ جنگ لڑرہا ہے اور دہشت گردی کی نئی نئی بھیانک شکلیں دنیا والوں کے سامنے پیش کررہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آل سعود نے یہ معاہدہ 2010 میں اس صہیونی کمپنی کے ساتھ منعقد کیا تھا اور یہ کمپنی 2010 سے ہی خفیہ طور پر سعودی عرب میں حجاج کرام کے تمام معاملات کی چھان بین کرتی ہے اور سعودی فورسز کے حفاظت اقدامات کی نگرانی کرتی ہے اور سعودی حکام کی منظوری سے پوری دنیا سے آنے والے حجاج کے ساتھ تعامل اور لین دین کرتی ہے جبکہ حجاج نہ تو انہیں جانتے تھے اور نہ ان کے مقاصد سے آگاہ تھے اور وہ ان کے مکمل کوائف اور ان کی سرگرمیوں نیز ان کے ممالک میں ان کے کردار سے آگہی حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس سال اس کمپنی کو منظر عام پر لایا گیا ہے جس کا نام سعودی عرب میں "المجال” ہے اور اس کا سربراہ ایک سعودی باشندہ "خالد البغدادی” ہے جو درحقیقت سعودی سیکورٹی ایجنسیوں کا سابق کارکن ہے اور اس وقت اس کمپنی کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر سرگرم ہے۔
واضح رہے کہ سعودی اور صہیونی خفیہ اداروں کے درمیان لبنان، عراق اور شام میں وسیع تعاون موجود ہے اور کئی نمایاں عرب کمانڈروں کے قتل میں یہ ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے آئے ہیں۔ ان جہنمی اداروں کے مشترکہ دہشت گردانہ اقدامات کا ایک نتیجہ حزب اللہ کے چیف کمانڈر شہید حاج عماد مغنیہ کی شہادت ہے جبکہ اس وقت بھی عراق اور شام نیز لبنان میں آل سعود اور آل صہیون قریبی تعاون کرکے ان ممالک کے عوام کو موت کی نیند سلا رہے ہیں اور اب ان کے درمیان تعاون مکہ اور مدینہ تک بھی پہنج چکا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button