سعودی عرب

سعودی عرب کے شیعوں کا آل سعود کو انتباہ

baqer nimarسعودی عرب کے اٹارنی جنرل کی ملک کے ممتاز عالم دین شیخ باقر النمر کو پھانسی دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کی درخواست پر اس ملک کے شیعوں اور حکومت مخالف افراد نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کرنے اور ریلیاں نکالنے کی دھمکی دی ہے۔
سعودی عرب کے اٹارنی جنرل کی ملک کے ممتاز عالم دین شیخ باقر النمر کو پھانسی دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کی درخواست پر اس ملک کے شیعوں اور حکومت مخالف افراد نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کرنے اور ریلیاں نکالنے کی دھمکی دی ہے۔
مخالفین نے سعودی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے حکام نے شیخ النمر کو موت کی سزا دینے یا انہیں قتل کرنے کا اقدام کیا تو وہ ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کریں گے کیونکہ سعودی عرب کے مشرقی شہروں کے عوام سڑکوں پرنکل آئیں گے۔
خبری ذرائع نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ سعودی اٹارنی جنرل کی اس درخواست کے بعد ملک کے مشرقی شہروں میں ایسے پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں جن میں سعودی حکام کو انتقامی کارروائیوں اور ان علاقوں کے تیل کی فراہمی منقطع کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
سعودی عرب کے ممتاز عالم شیخ باقر النمر گزشتہ آٹھ ماہ سے جیل میں قید ہیں انہیں سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں عوامی مظاہروں کے دوران حراست میں لیا گيا تھا۔ سعودی عرب کی پولیس نے پہلے انہیں شدید زخمی کیا تھا اور پھر حراست میں لے لیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے فورا بعد سعودی عرب میں عوامی احتجاج شروع ہو گیا تھا لیکن سعودی عرب کی حکومت نے ان کی رہائی کے لیے عوامی مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا حتی انہیں اپنے دفاع کے لیے وکیل تک کرنے کی اجازت نہیں دی اور اب وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ جیسے بےبنیاد الزامات عائد کر کے انہیں موت کی سزا دینے کی کوشش میں ہے۔ یہ ایسا الزام ہے کہ جس کی کوئی قانونی اساس و بنیاد نہیں ہے کیونہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا اور اپنے جائز مطالبات کو پرامن طور پر بیان کرنا ہر ملک کے ہر شہری کا حق ہے۔
لیکن سعودی عرب کے حکمران کہ جو نسل در نسل اس ملک پر آمرانہ انداز سے حکومت کرتے چلے آ رہے ہیں، اس ملک کے شہریوں خاص طور پر شیعوں کا کوئی بھی حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سعودی عرب میں شیعوں کی آبادی پندرہ سے بیس فیصد ہے لیکن آل سعود اپنے قدامت پسندانہ نظریات کی بنیاد پر ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کرتی ہے۔ اس کے اسی رویے کی وجہ سے اس پر ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران سعودی عرب کے حکام نے سیکڑوں سعودی شہریوں کو پرامن مظاہروں میں شرکت، اپنے جائز مطالبات کو بیان اور عدل و انصاف پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے کی بنا پر گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔
بعض ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہے اور ان میں سے بعض قیدیوں کے بارے میں تو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔
یہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال کا صرف ایک پہلو ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیمیں اس بارے میں نرم اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور وہ کچھ عرصے کے بعد آل سعود کو صرف تحمل اور بردباری سے کام لینے کی نصیحت کرنے پر اکتفاء کرتی ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اس بار شیخ باقر النمر کے سلسلے میں سعودی عرب خاص طور پر اس کے مشرقی علاقوں کے عوام نے ایک ٹھوس موقف کا اعلان کیا ہے اور آل سعود کو زبردست احتجاجی مظاہروں کی دھمکی دی ہے کہ جن سے سعودی عرب کے حالات بدل بھی سکتے ہیں اور یہ چیز آنے والے سعودی حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔
…..

متعلقہ مضامین

Back to top button