سعودی عرب

آل سعود کا نیا حربہ، عوامی مظاہروں کو روکنے کے لیے علما گرفتار

saudi flagسعودی عرب کی سکیورٹی فورسز نے گزشتہ دو روز کے دوران عطیہ السلمی، عبداللہ الغامدی اور عاصم المشعلی سمیت کئي علمائے کرام کو سیاسی کارکنوں کی آزادی کے لیے کوشش کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ سعودی عرب کے سو سے زائد علمائے کرام نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے بادشاہ کے دربار کے سامنے مظاہرہ کر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
دریں اثنا عرب ٹی چینل حقوق بشر نے سعودی عرب کے علمائے کرام کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان علمائے کو کسی ٹھوس وجہ کے بغیر زبردستی سکیورٹی فورسز کے مراکز میں منتقل کیا گيا ہے۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب حالیہ دنوں کے دوران دارالحکومت ریاض سمیت سعودی عرب کے مخلتف علاقوں میں گرفتار سیاسی قیدیوں کی حمایت میں مظاہرے کیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کی جانب سے گرفتار سیاسی قیدیوں سے متعلق خبروں پر سنسر کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں نے صرف اظہار خیال کرنے کی بنا پر جیلوں میں ڈالے جانے والے افراد کی تعداد تیس ہزار سے زائد بیان کی ہے۔ ایسے حالات میں سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے احتجاجی مظاہروں کے انعقاد کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔
عبداللہ بن عبدالعزیز نے دو روز قبل آل سعود کے درباری مولویوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں سعودی عرب کے شہریوں کی خراب معاشی صورت حال اور ان کی ناراضی کے بارے میں خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی خبروں اور رپورٹوں کی اشاعت کا مقصد کہ جو ان بقول غیرملکی اشارے پر پھیلائی جا رہی ہیں، آل سعود کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے ادارہ شماریات نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں بےروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور اس ملک کی تقریبا چالیس فیصد افرادی قوت بے روزگار ہے۔
سعودی عرب کی حکومت کے ایک مخالف سیاسی رہنما حمزہ حسن نے سعودی عرب میں موجود مشکلات اور چیلنجوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام میں غربت اور بےروزگاری بڑھ رہی ہے اس کے علاوہ ملک کے امور مغربی ملکوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں یہ سب چیزیں آل سعود حکومت کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔
سعودی عرب میں آل سعود کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ فروری دو ہزار گیارہ سے شروع ہوا اور تب سے لے کر اب مختلف شہروں میں عوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ منظم طریقے سے جاری ہے۔ اور اگر آل سعود کی حکومت نے عوامی مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو یہ عوامی مظاہرے پورے سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اور پھر آل سعود کو عوامی غیظ و غضب کی آگ سے اپنے دامن کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button