سعودی عرب

بادشاہ عبداللہ کی حالت نازک ہے سینئر علماء بورڈ کی دوبارہ تشکیل کا شاہی فرمان

saudi kingسعودی خاندان کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی حالت نازک بتائی گئی ہے اور انھوں نے اعلی علماء بورڈ کی دوبارہ تشکیل کا فرمان جاری کیا ہے / سعودی دربار کے مفتیوں نے اپنی تاریخی روایت ـ یعنی بادشاہ کے خلاف احتجاج کی دائمی حرمت ـ کو توڑتے ہوئے بادشاہ کے محل کے سامنے مجلس شوری میں خواتین کی تقرریوں کے خلاف احتجاج کیا۔
رپورٹ کے مطابق سعودی بادشاہ نے شدید بیماری کی حالت میں فتوے دینے اور دینی سفارشات مرتب کرنے والے اعلی علماء بورڈ کی دوبارہ تشکیل کا فرمان جاری کیا ہے۔
ادھر آل سعود کے دارالحکومت ریاض سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی صحت دوبارہ گر گئی ہے اور وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سے عاجز ہوچکے ہیں۔
ٹویٹر نامی سماجی نیٹ ورک پر حکمران خاندان کے پس پردہ حالات کے بارے میں لکھنے والے مشہور مگر گمنام سعودی لکھاری "مجتہد” نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے باوجود کہ بادشاہ کے محل میں کابینہ کے اجلاس کے لئے پورا پورا انتظام ہوچکا تھا لیکن بادشاہ اس اجلاس میں حاضر نہيں ہوسکے۔
مجتہد نے لکھا کہ بادشاہ کی صحت کی خرابی کی وجہ سے غیرمنتخب اور بےاختیار مجلس شوری کے نئے مقرر کردہ اراکین کی تقریب حلف برداری بھی جمعہ تک ملتوی کردی گئی ہے؛ حتی کہ ہوسکتا ہے کہ یہ تقریب پیر کے روز عرب معاشی ترقی کانفرنس کے انعقاد کے بعد تک ملتوی کی جائے۔
مجتہد نے لکھا ہے کہ بادشاہ حالیہ آپریشن کے بعد اچانک دل کے دھڑکن میں کمی سے دوچار ہوئے جس کے بعد ڈاکٹروں دھڑکن کو منظم کرنے کے لئے وقتی طور پر ایک مشین کی مدد لی۔ یہ مشین "بیس میکر” کہلاتی ہے جو 16 امریکی ڈاکٹروں کی موجودگی میں نصب کی گئی لیکن ڈاکٹر اب بھی شاہ عبداللہ کی صحت کے بارے میں شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
مجتہد کی رپورٹ کے مطابق سلمان کو ولیعہد مقرر کرنے کے بعد بادشاہ نے منطقۃالشرقیہ سمیت کئی علاقوں کے امراء کے تعین کا بارہا ارادہ کیا لیکن ان کا یہ ارادہ ان کی بیماری کی وجہ سے ملتوی ہوتا رہا جس پر آخر کار انھوں نے عمل کیا اور سلمان کے کئی بیٹوں کو بھی امارت ملی اور ریاض کی معاشی کانفرنس کے بعد یہ تبدیلیاں عملی جامہ پہنیں گی اور حتی کہ وزراء کونسل کے رکن "عبدالعزیز بن فہد” کو بھی تبدیل کیا جائے گا۔
مجتہد نے لکھا ہے کہ بادشاہ عبداللہ اور ولیعہد سلمان کی عقلی اور فکری سطح بہت ہی محدود ہے چنانچہ بادشاہ کے دفتر کے سربراہ خالد التویجری ملک میں تمام تر تنزلیوں، تقرریوں اور معزولیوں میں سب سے زیادہ کردار ادا کررہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ التویجری ہی کی وجہ سے مجلس شوری میں پہلی بار 30 خواتین کا تقرر کیا گیا ہے۔
تیس خواتین کی تقرری؛
شاہی فیصلے کے خلاف سعودی دربار کے مفتیوں کے احتجاجی اقدامات
سعودی دربار کے مفتیوں نے اپنی تاریخی روایت ـ یعنی بادشاہ کے خلاف احتجاج کی دائمی حرمت ـ کو توڑتے ہوئے بادشاہ کے محل کے سامنے مجلس شوری میں خواتین کی تقرریوں کے خلاف احتجاج کیا جو نوعیت اور کیفیت کے لحاظ سے منفرد اقدام شمار کیا جارہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق قصر شاہی کے سامنے دربار کے شیوخ اور مفتیوں کا احتجاج سعودی خاندان کی بادشاہت کی پوری تاریخ کا منفرد واقعہ تھا جو بالآخر رونما ہوا اور یہ واقعہ بھی اپنی نوعیت میں منفرد تھا کہ سعودی سرکاری فورسز نے مفتیوں اور شیوخ کا لحاظ رکھا اور انہیں زد و کوب نہيں کیا۔
ایک سعودی سیاستدان اور تجزیہ نگار حمزہ الحسن نے العالم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سعودی مفتی اور شیوخ عام طور پر خفیہ ملاقاتوں میں آل سعود کو سفارشات اور تجاویز دیتے اور نصیحت کرتے ہیں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کا نہ صرف استقبال کرتے ہیں بلکہ ان کے خلاف شدید قسم کے فتوے بھی جاری کرتے ہیں لیکن اب انھوں نے خود ہی اپنی روایت کو توڑ ڈالا ہے اور آل سعود حکومت کے خلاف سیاسی ـ دینی احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا: علماء اور مفتی حضرات ریاض میں قصر شاہی پہنچے اور ملاقات کی درخواست کی تو انہيں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اور انھوں نے محل کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا؛ اور بادشاہ نے گویا مفتیوں اور شیوخ کو گرفتار نہ کرکے، سزا نہ دے کر اور زد و کوب نہ کرکے ان کا احترام کیا کیونکہ جب بھی معترضین کسی وزارت خانے یا کسی ملکی ادارے کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کرتا ہے انہیں زد و کوب کیا جاتا ہے، شدید سزا دی جاتی ہے اور گرفتار کیا جاتا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ بلادالحرمین میں دینی ادارہ کو شدید قسم کے الجھنوں کا سامنا ہے وہ عوام کو کسی صورت میں بھی شاہی حکومت کے قانونی جواز کے حوالے سے قائل کرنے سے عاجز آچکے ہیں چنانچہ اس وقع علماء آل سعود کی حکمرانی کے حوالے سے کئی گروپوں میں بٹ گئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ تمام علماء حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیں۔
الحسن نے مزید کہا: سعودی حکومت کو چیلنجوں اور الجھنوں سے بھرپور سال (2013) کا سامنا ہے کیونکہ سنہ 2012 میں عوامی تحریک کو وسعت اور تقویت ملی اور یہ تحریک منطقۃالشرقیہ کی حدود سے نکل کر پوری مملکت میں پھیل گئی اور آل سعود کے حکمران عوامی مطالبات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ نئے سال میں احتجاج کا سلسلہ مزید وسیع ہوگا، بدامنی ہوگی، عوام کو تشدد کا نشانہ بنا کر کچلا جائے گا اور آل سعود کے حکمران پھر بھی عوامی مطالبات تسلیم کرنے میں ناکام رہیں گے اور یہ سال آل سعود کے لئے بہت ہی برا سال ثابت ہوگا۔
انھوں نے بادشاہ کی طرف سے مجلس شوری میں تیس خواتین اراکین کی تقرری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مجلس شوری منتخب پارلیمان نہیں ہے، اس کے اراکین عوام کی طرف سے نہیں بلکہ بادشاہ کے ہاتھوں مقرر کئے جاتے ہیں، مجلس شوری نہ تو قانون سازی کرسکتی ہے اور نہ ہی ملکی انتظام و انصرام پر نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button