سعودی عرب کے نئے ولیعہد کا تقرر؛ بیعت کمیٹی رخصت
آل سعود کے بادشاہ نے دوسرے ولیعہد نائف بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد اپنے بھائی 77 سالہ سلمان بن عبدالعزیز کو ولیعہد مقرر کیا ہے جبکہ وہ وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم ہونگے اگر چہ سعودی عرب میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق نائف بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد سعودی بادشاہ نے سلمان بن عبدالعزیز کو ولیعہد بنایا ہے جو نومبر 2011 میں سابق ولیعہد و وزیر دفاع سلطان بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد وزیر دفاع بنے تھے اور اب ان کے وزارت دفاع کا عہدہ بھی ہوگا اور ایسے وزیر اعظم کے نائب بھی ہونگے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
سلمان سرزمین حجاز پر سعودی خاندان مسلط کرنے والے عبدالعزیز بن سعود کے پچیسویں بیٹے ہیں اور عبداللہ کے بعد ان کو خاندان آل سعود کا تیسرا درجہ دیا جاتا تھا۔
سلمان اپنی پوری زندگی میں سعودی بادشاہوں کے مشیر خاص سمجھے جاتے تھے اور خاندان کے داخلی امور میں ان کا مؤثر کردار تھا۔
وہ 77 سال کے معمر شہزادے ہیں جو دل اور معدے کے دائمی مریض ہیں۔ سلمان نومبر 2011 سے قبل مکہ معظمہ کے گورنر تھے۔
کہا جاتا ہے ولیعہد کے انتخاب میں عبداللہ بن عبدالعزیز شدید اعصابی تناؤ اور اضطراب کا شکار تھے اور ان کا اضطراب اور پریشانی اس بات کی دلیل سمجھی گئی ہے کہ ان کی اپنی صحت پر بھی کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ ولیعہدوں کے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بھی 89 سال کے سن رسیدہ بادشاہ ہیں چنانچہ انھوں نے ولیعہد کے انتخاب کے لئے بیعت کمیٹی کے فیصلے کا انتظار جائز نہيں سمجھا۔
سلمان بن عبدالعزیز نائف کے برعکس وہابی مفتیوں کے قریبی نہيں سمجھے جاتے لیکن ان کا تعلق مغربی دنیا سے بہت وسیع ہے اور اسرائیلیوں کے نزدیک نہایت پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔
دریں اثناء تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز نائف بن عبدالعزیز کی نسبت کمزور سمجھے جاتے ہیں کیونکہ نائف ولیعہد ہوتے ہوئے بھی سعودی عرب کے حقیقی بادشاہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سے امور میں عبداللہ بن عبدالعزیز کے احکامات ٹالتے یا بادشاہ سے پوچھے بغیر احکامات جاری کرتے تھے اور ان ہی احکامات میں سے ایک بحرین پر سعودیوں کی چڑھائی کا حکم تھا جو اس نے عبداللہ کی مخالفت کے باوجود جاری کیا تھا اور اس سلسلے میں انہیں وہابی مفتیوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
واشنگٹن میں مقیم سعودی تزویری تجزیہ نگار علی الاحمد کا کہنا ہے کہ نائف کی موت سے سعودی شاہی مشینری میں بہت بڑا خلاء معرض وجود میں آیا ہے جس کو پر کرنا سعودی خاندان کے بس کی بات نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ نئے ولیعہد بھی اپنے دو گذرے ہوئے ولیعہد بھائیوں کی طرح بیمار ہیں جن کو ڈيڑھ سال قبل فالج کا دورہ پڑا ہے اور معدے اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور پھر ان کو سعودی خاندان کا اتحاد و یکجہتی قائم رکھنے، ملکی مسائل و مشکلات حل کرنے اور اشتراک اقتدار کے لئے جدوجہد کرنے والے عوام کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
علی الاحمد نے کہا: نائف کے انتقال کے ساتھ ہی عوام پر سعودیوں کے ظلم و ستم میں شدت آئی ہے جس کا مقصد دنیا والوں کو باور کرانا ہے کہ آل سعود متحد اور طاقتور اور ہر قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اسی مقصد سے، مخالفین پر تشدد کرنے کا سلسلہ مستقبل قریب میں مزید شدت پائے گا۔
انھوں نے کہا کہ مصر، شام یمن اور عراق میں القاعدہ کے ساتھ لین دین کی ذمہ داری نائف کے پاس تھی اور اب وہ نہيں ہیں تو اس حوالے سے سعودی پالیسی میں ابھی سے دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں جنہیں درست کرنا سلمان کا کام ہے اور نہ ہی کسی اور سعودی شہزادے کا؛ اور ہم بہت جلد دیکھیں گے کہ مذکورہ ممالک اور دنیا کے دوسرے ممالک میں آل سعود کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوجائے گا۔
انھوں نے کہا: سلمان بن عبدالعزيز اپنے شہریوں کے حوالے سے درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وہ غیر مستقل مزاج اور متنازعہ شخصیت کے مالک ہیں اور وہ سیاسی اور معاشرتی حوالے سے نائف سے زیادہ انتہاپسند اور غیر حقیقت پسند ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سلمان کو بہت جلدی اور غیر متوقعہ انداز سے ولیعہد بنایا گیا اور بادشاہ کا یہ اقدام دوسرے شہزادے بالخصوص آل سعود کی نئی نسل کے بااثر اور نوجوان شہزادے ان کے ساتھ مقابلے پر اتر سکتے ہیں اور انہیں اپنا رقیب سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ نائف عشروں سے سعودی عرب کے وزیر داخلہ تھے اور پوری سیکورٹی ان کے ہاتھ میں تھی اور ایجنسیاں اور خفیہ ادارے ان کے ہاتھ میں پروان چڑھے تھے چنانچہ وہ ان شہزادوں کے مقابلے میں ہولناک فولادی دیوار سمجھے جاتے تھے اور اب ان کے انتقال کی وجہ سے رعب و ہیبت کی دیوار منہدم ہوچکی ہے چنانچہ آل سعود خاندان میں بہت جلد بڑے بڑے تنازعات رونما ہونے کا امکان ہے۔
یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ سعودی بادشاہ نے خاندانی تنازعات سے بچنے کے لئے 2005 میں سعودی بادشاہت سنبھالنے کے بعد، 2007 میں شہزادوں پر مشتمل بیعت کمیٹی تشکیل دی تھی اور ولیعہد کے تقرر کا اختیار اس کمیٹی کو سونپ دیا تھا لیکن نائف کی موت کے بعد نئے ولیعہد کے انتخاب کے حوالے سے انھوں نے غیر معمولی عجلت سے کام لیتے ہوئے بیعت کمیٹی کا انتظار کئے بغیر نئے ولیعہد کے تقرر کا اعلان کیا۔ شاید انہیں خوف تھا کہ کمیٹی کے انتخاب سے قبل ہی وہ بھی دنیا سے رخصت ہوجائیں اور آل سعود کی بادشاہت خطرے میں پڑ جائے یا شاید انہيں خدشہ تھا کہ بیعت کمیٹی کے اراکین کہیں وہابی مفتیوں کے دباؤ کے تحت کسی اور شہزادے کو ہی ولیعہد نہ بنائیں!؛ بہر حال عبداللہ بن عبدالعزیز نے بیعت کمیٹی کی رائے پوچھے بغیر نئے ولیعہد کا تعین کرکے اس کمیٹی کو بھی عملا رخصت کردیا ہے اور بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بادشاہ کا یہ اقدام خاندان کے اندرونی اختلافات میں شدت آنے کی دلیل ہے۔
ایک سعودی تجزیہ نگار "حمزہ الحسن” کا کہنا تھا کہ بادشاہ نے ذاتی رائے سے ولیعہد کا تعین کرکے بیعت کمیٹی کو ختم کردیا ہے کیونکہ انہیں یقین نہ تھا کہ افراد خاندان سلمان کو حتمی طور پر ولیعہد بنائیں گے؛ اور اس اقدام کا ایک اٹل نتیجہ یہ ہوا کہ بیعت کمیٹی خود بخود ختم ہوگئی ہے اور اب اس کمیٹی کے پاس کرنے کے لئے کوئی کام نہيں ہے۔
انھوں نے کہا: سعودی خاندان کے مختلف دھڑوں میں شدید اختلافات، معاشی، سیاسی اور معاشرتی ناکامیوں کے تسلسل، عوام کو کچلنے اور ان پر ظلم و استبداد کی تمام ترکیبیں آزمانے کی وجہ سے آل سعود خاندان تنزلی کی ڈھلوان پر زوال کی طرف رواں دواں ہے اور طلال بن عبدالعزیز اور ترکی بن فیصل، جو سلمان سے عمر میں بڑے ہیں اور عبداللہ کا بیٹا متعب، اپنے آپ کو ولیعہدی کا زیادہ اہل سمجھتے ہیں اور یہ بات بھی وجہ نزاع ہے۔
انھوں نے کہا: نائف بہت طاقتور تھے اور اب سعودی بادشاہت دو ستونوں کے سہارے کھڑی ہے: بیمار اور کمزور بادشاہ اور کمزور اور بے بس ولیعہد اور اس صورت میں آل سعود کو اپنی بادشاہت قائم رکھنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا اور یہ بادشاہ طویل عرصے تک قائم نہيں رہ سکے گی۔
انھوں نے سعودی حکومت کی کمزوری اور اندرونی انتشار کا شکار ہے اور آل سعود نے عوام کے لئے ایسا کچھ نہيں کیا کہ وہ اس خاندان کو لائق عزت و احترام سمجھیں۔
دریں اثناء بلاد الحرمین سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نائف بن عبدالعزیز کے انتقال اور بادشاہ کی بیماری اور سیاسی معاملات کے انتظام و انصرام میں ان کی بے بسی کی بنا پر اس ملک میں موجودہ تناؤ کی صورت حال میں شدت آئی ہے۔
سعودی عرب کے امور کے مصری ماہر "فکری عبدالمطلب نے العالم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نائف بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد سعودی عرب کی صورت حال مزید تناؤ کا شکار ہوگئی ہے لیکن یہ صورت حال فوری طور پر علاقے کے ممالک میں سعودی پالیسیوں پر اثرانداز نہیں ہوگی کیونکہ اس ملک کی خارجہ پالیسی کی باگ ڈور امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔
انھوں نے کہا: سابق ولیعہد سلطان بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد بیعت کمیٹی نے نائف بن عبدالعزیز کو ولیعہد مقرر کرکے در حقیقت بادشاہی خاندان کے اندرونی جھگڑوں پر پردہ ڈال دیا تھا [حالانکہ شہزادہ سلطان کے جنازے میں ہی شہزادے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور ایک دوسرے کی پٹائی کردی]۔
شہزادہ نائف بن عبدالعزیز موجودہ بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دوسرے ولیعہد تھے جو بادشاہ بننے سے پہلے دنیا سے رخصت ہوئے اور بادشاہ کو ان کے جنازے میں شرکت کرنی پڑی۔ یوں صرف آٹھ مہینوں کے عرصے میں آل سعود کے دو ولیعہد انتقال کرگئے۔
عبدالمطلب نے بادشاہ کے ہاتھوں سلمان کے ولیعہد بننے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ ولیعہد سلمان بن عبدالعزیز ہی ہونگے کیونکہ وہ امریکہ کے پسندیدہ ترین شہزادے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا بعض لوگوں کی یہ بات درست ہے کہ سلمان، نائف سے نرم خصلتوں کے مالک ہیں اور معتدل انسان ہيں، آپ کا کیا خیال ہے تو انھوں نے کہا: نہیں! سلمان نائف سے کہیں زیادہ تشدد پسند اور غیر معتدل ہیں اور آخرکار ان کی شخصیت کا دارومدار دنیا اور علاقے میں آل سعود کی پالیسیوں پر ہے جن کی باگ ڈور امریکہ اور برطانیہ کے پاس ہے۔
انھوں نے کہا: جب نائف کو ولیعہد بنایا گیا تو سعود شہزادے طلال بن عبدالعزیز نے اس انتخاب اور اپنے آپ کو نظر انداز کئے جانے پر موقف اپنایا تھا کہ سعودی خاندان خونی جھڑپوں کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے اور میرا نہيں خیال کہ ان کا یہ موقف محض ایک تشہیری ہتکھنڈہ ہوسکتا ہے جبکہ طلال بن عبدالعزیز ـ جن کا بیٹا "ولید بن طلال” دنیا کے چند صاحبان ثروت میں شمار ہوتا ہے اور دنیا اور سعودی عرب میں اس کی دولت کا چرچا ہے ـ اہم سعودی شاہزادوں میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ ان کی بات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔