سعودی عرب

ایام حج کی آمد آمد؛ وہابیت کی سرکاری ‎سازش، اہل تشیع حجاز سے چلے جائیں /رد عمل

149862 mمسجد النبی (ص) کے وہابی خطیب الحذیفی نے دعوی کیا کہ شیعہ سعودی حکمرانی میں تمام تر حقوق سے بہرہ مند ہیں۔
رپورٹ کے مطابق الحذیفی نے وحدت مسلمین کی اشد ضرورت کے باوجود، حج کی آمد آمد پر وہابیت کی سرکاری ‎سازش کا آغاز کرتے ہوئے قطب وحدت امت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر شریف کے ساتھ کھڑے ہوکر  امت اسلام کے پیکر کو اپنی ہرزہ سرائیوں سے مجروح کردیا ہے۔

الحذیفی نے اس توہین آمیز خطبے میں اہل تشیع کو رافضی اور خارج از اسلام قرار دیتے ہوئے دعوی کیا کہ آل سعود کی حکمرانی کے دور میں اہل تشیع تمام تر حقوق سے بہرہ مند ہیں۔
یادرہے کہ سعودی عرب کے منظق‍ۃالشرقیـۃ میں عالم عرب کے انقلابات کے آغاز سے ہی حقوق کے حصول کے لئے تحریک شروع ہوئی ہے جو آل سعود کے شدید ترین تشدد اور ظلم و جبر کے باوجود جاری ہے اور الشرقیہ کے زعماء بار بار اعلان کررہے ہیں کہ ان کی تحریک آل سعود کے ہاتھوں ان کے ضائع ہونے والے حقوق کی بحالی کے لئے شروع ہوئی ہے لیکن آل سعود کے درباری واعظ کا کہنا ہے کہ اہل تشیع کو آل سعود نے ان کے تمام تر حقوق دے رکھے ہیں۔
الحذیفی نے آل سعود کی جانب سے بحرین پر باقاعدہ جارحیت کو نظر انداز کرتے ہوئے دعوی کیا کہ العوامیہ شہر میں ہونے واے مظاہرے ایک بیرونی ملک کی مداخلت کا نتیجہ ہے۔
الحذیفی نے اسلامی تعاون تنظیم (!) سے اپیل کی ہے کہ وہ رکن ممالک کو دوسرے ممالک میں مداخلت سے پرہیز کرنے کی تنبیہ کرے۔
الحذیفی نے یہ درخواست ایسے حال میں پیش کی ہے کہ 10 ہزار سےزا‏‏‏ئد سعودی فوجی اور رضاکار وہابی افراد آل سعود کی ہدایت اور الحذیفی جیسے وہابی مفتیوں کے کہنے پر بحرین پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور خلیفی حکومت کے ساتھ مل کر بحرینی عوام کو کچلنے میں مصروف اور اب تک دسیوں مساجد، صحابہ کرام اور بزرگان دین کی قبور اور مذہبی مراکز کومنہدم کر چکے ہیں اور قرآن کے دسیوں نسخے نذر آتش کئے گئے ہیں جس کے لئے سعودی عرب کے وہابی مفتیوں نے فتوی دیا تھا کہ "بحرین میں موجودہ قرآن چونکہ شیعہ قرآن ہے اسی لئے اس کو جلانا جائز ہے”۔
دین اور اخلاق اور سچ و صداقت کے انحصاری دعویدار وہابی مولوی الحذیفی نے پھر بھی حقائق کو نظرانداز کیا اور بحرین پر وسیع سعودی جارحیت اور فوجی قبضے کو ہیچ تصور کرتے ہوئے دعوی کیا "بحرین بیرونی مداخلت کا عملی نمونہ ہے اور «بحرین کی حکومت نے آل سعود حکومت سے ممکنہ المیہ روکنے کے لئے مداخلت کی درخواست کی تھی اور آل سعود کی مداخلت اس المیئے کے سد باب کا باعث بنی ہے»۔
کس کو نہیں معلوم کہ تیس لاکھ حجا‌زی شیعوں کی صورت حال کیا ہے، انہیں کس قسم کے امتیازی رویوں کا سامنا ہے؟ انہیں زندگی کے ابتدائی ترین وسائل سے کیسے محروم کیا گیا ہے؟ عالمی تنظیمیں امریکہ اور اسرائیل کے زیر تسلط اور اسرائیل اور امریکہ سعودی حکمرانوں اور ان کے قریبی ساتھی اور رفقائے کار اور دوست ہیں چنانچہ سعودی عرب میں انسانیت کی گردن زنی عام سےبات ہونے کے باوجود عالمی تنظیموں میں ان مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن بعض اوقات شیعہ علاقوں میں آل سعود کے مظالم چھپانے سے بھی نہیں چھپتے تو یہ تنظیمیں بھی مجبور ہوکر بولتی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ اب تو تقریبا ہر ماہ سعودیوں کی ہاتھوں انسانیت کے خلاف جرائم کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں لیکن سعودی عرب کے وہابی دین میں یہ جرائم ظآہرا درست ہیں چنانچہ انسانیت کے خلاف ان اقدامات کو "نعمتوں” کا نام دیا جاتا؛ مثلاً الحذیفی نے دعوی کیا ہے کہ شیعہ اس وقت سعودی عرب میں ہر قسم کی نعمتوں اور سہولتوں سے استفادہ کررہے ہیں اور آل سعود سے قبل کے دور میں اگر ان کی صورت حال خراب تھی تو اب ان کی زندگی کی سطح بتا رہی ہے کہ ان کی صورت حال بہت بہتر ہے۔
الحذیفی کی ہرزہ سرائیاں
الحذیفی نے کہا کہ:
٭ شیعہ رافضی ہیں
٭ حجاز کے اہل تشیع کو عراق ہجرت کرنی چاہئے
٭ شیعہ کافر ہیں
٭ اسلامی تعاون تنظیم کو ایران کی رکنیت ختم کرنی چاہئے
٭ یہ تنظیم ایران کی مذمت کرے
٭ الحذیفی جو عام طور پر زبانی تفریر کیا کرتا ہے اپنی تقریر ایک کاغذ سامنے رکھ کر کررہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تقریر آل سعود کے حکمرانوں یا وہابیت کی کسی بیرونی حلیف طاقت نے لکھ کر دی تھی۔ بہرحال حذیفی کی تقریر سرکاری موقف سمجھی گئی ہے۔
٭ الحذیفی کی اس سرکاری تقریر نے اس بات میں کوئی شک نہیں رہنے دیا کہ آل سعود کی بنیادی پالیسی عوام کی تقسیم اور افتراق اور انتشار پھیلانے پر استوار ہے؛ مسئلہ صرف فرقہ وارانہ امتیاز ہی نہیں ہے بلکہ آل سعود کی بنیاد ہی فرقہ وارانہ، قبیلہ پرستانہ اور علاقائی تعصبات پر مبنی ہے۔
رد عمل:
سعودی شیعہ عالم دین نے خبردار کیا: آل سعود شیعیان حجاز کے خلاف سازش کررہی ہے
العوامیہ شہر کے امام جمعہ اور خطیب آیت اللہ شیخ نمر بافر باقر آل نمر نے العوامیہ کے عوام کے خلاف  آل سعود کے جبر و تشدد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آل سعود کو اہل تشیع کے خلاف سازشوں کا ذمہ دار قرار دیا۔
انھوں نے العوامیہ کے حالیہ واقعات کے بارے میں آل سعود کے حکمرانوں کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے اس علاقے کے بحران کے کسی بیرونی ملک سے تعلق کے حوالے سے آل سعود کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا: آل سعود کی حکومت اس علاقے کے فرقہ وارانہ اور تشہیری و ابلاغی حملوں کی ذمہ دار ہے۔
آیت اللہ شیخ نمر نے جزیرة العرب کے شیعہ مفکرین، راہنماؤں اور علماء کو خبردار کیا کہ حکومت ان سب کو تشہیری سازشوں میں الجھانا چاہتی ہے۔
تفصیل کے لئے کلک کریں:
سعودی شیعہ عالم دین نے خبردار کیا: آل سعود شیعیان حجاز کے خلاف سازش کررہی ہے
 مسجدالنبی (ص) کے خطیب نے جرم کا ارتکاب کیا ہے
جزیرة العرب کے مشہور قلمکار اور محقق نے مسجدالنبی (ص) کے خطیب کے خطبہ جمعہ کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور الحذیفی پر ہیگ کے بین الاقوامی میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔  
ڈاکٹر عبدالرحمن الوابلی نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: پوری دنیا کے اہل تشیع کی مذمت میں شیخ الحذیفی کا معاندانہ موقف ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے قوانین کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم (Crime Against Humanity)  سمجھا جاتا ہے، اور جو شخص دوسروں کو انسانوں کے خلاف مشتعل کرتا ہے وہ انسانیت کے خلاف براہ راست جرم کے مرتکب ہونے والے شخص کی مانند مجرم ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق قابل گرفت اور اس کا عمل مذموم ہے۔
تفصیل کے لئے کلک کریں:
ڈاکٹر عبدالرحمن الوابلی: مسجدالنبی (ص) کے خطیب نے جرم کا ارتکاب کیا ہے
علی الاحمد: الحذیفی کا خطاب اہل تشیع کی توہین ہے
واشنگٹن کے خلیج فارس کے امور کے ادارے کے ڈائریکٹر نے کہا:  مدینہ منورہ کی مسجد النبی (ص) میں الحذیفی کا خطاب اس ملک کے اہل تشیع کی توہین ہے۔
واشنگٹن میں پرشین گلف افئرز انسٹٹیوشن کے ڈائریکٹر علی الاحمد نے ہفتے کے روز العالم سے بات چیت کرتے ہوئے مسجد النبی (ص) کے توہین آمیز خطاب جمعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس نے اہل تشیع پر رافضیت کا الزام لگایا اور نہایت توہین آمیز انداز سے اہل تشیع کو عراق ہجرت کرنے کا مشورہ دیا۔
الاحمد نے کہا: مدینہ منورہ کے خطیب جمعہ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ایران کے خلاف تکفیری لب و لہجہ اپنایا اور ایران کے خلاف عجیب انداز سے اظہار خیال کیا۔  اور اسلامی تعاون تنظیم سے کہا کہ وہ اجلاس تشکیل دے اور ایران کی رکنیت منسوخ کرے۔
انھوں نے کہا: الحذیفی ایک کاغذ سے تقریر کررہا تھا اور بالکل واضح تھا کہ اس نے یہ تقریر خود نہیں لکھی کیونکہ اس کو عبارت پڑھنے میں مشکل ہورہی تھی اور کئی الفاظ پڑھنے سے عاجز تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تقریر درحقیقت ایک باضابطہ سرکاری تقریر تھی جو اس کو پڑھنے کے لئے دیا گیا تھا۔
تفصیل کے لئے کلک کریں:
علی الاحمد: الحذیفی کا خطاب اہل تشیع کی توہین ہے
سعودی سیاستدان: مدینہ کے امام جمعہ کا موقف قابل مذمت ہے
سعودی سیاستدان نے سعودی عرب کے تیس لاکھ سے زائد باشندوں کی عراق جلاوطنی پر مبنی مسجد النبی (ص) کے خطیب جمعہ کے عجیب اور انتہاپسندانہ موقف کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
احمد محمد آل ربح نے العالم کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا:  شیخ علی الحذیفی نے مشرقی علاقوں کے تیس لاکھ سے زائد عوام کی جلاوطنی کا مطالبہ کیا ہے اور آل سعود سرکار کا یہ اشتعال انگیز موقف ثابت کرتا ہے کہ سعودی عرب پر حکمران نظریہ انتہاپسندانہ اور فرقہ وارانہ ور اسلامی مذاہب کے پیرکاروں کے خلاف اس حکومت کے امتیازی سلوک کا ثبوت ہے۔
آل ربح نے کہا: الحذیفی کے خطبے کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے کیونکہ اس نے کسی خاص مذہب کی پیروی کی بنا پر مشرقی علاقوں کے نسلی تصفیئہ (Ethnic Cleansing) اور انہیں ملک سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس نے یہ سب آل سعود کی حکومت کی ہدایت پر کیا ہے۔ کیونکہ الحذیفی آل سعود حکومت کا باضابطہ ملازم اور سرکاری منصب کا حامل ہے اور اس کی ہر بات آل سعود کی بات سمجھی جاتی ہے۔
تفصیل کے لئے کلک کریں:
سعودی سیاستدان: مدینہ کے امام جمعہ کا موقف قابل مذمت ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button