سعودی عرب
جبری شادیاں وہابیت میں جائز اور مکتب اہل بیت (ع) میں باطل
![wahabi_myth](images/stories/2010/06/wahabi_myth.jpg)
مثال کے طور پر حال ہی میں ایک 42 سالہ خاتون ڈاکٹر نے سعودی عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس کو اپنے رفیق کار سرجن سے شادی کرنے کی اجازت دے دے لیکن عدالت نے بھی اس عرب ڈاکٹر خاتون کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس کی شادی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کے والد اور اس کے بھائیوں کو حاصل ہے۔
لیڈی ڈاکٹر کے باپ اور بھائیوں کا کہنا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر جس مرد ڈاکٹر سے شادی کرنا چاہتی ہے اس کا تعلق دوسرے قبیلے سے ہے جبکہ اس کو دوسرے قبیلے کے مرد سے شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
انسانی حقوق کے شعبے میں فعال سعودی خاتون "سہیلا زین العابدین” نے اس واقعے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب میں کبھی تو 10 سالہ لڑکی کو اس کی مرضی کے بغیر شوہر کے گھر بھیج دیا جاتا ہے لیکن ایک 42 سالہ خاتون کو شادی سے منع کیا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلامی شریعت کہتی ہے کہ غیر شادی شدہ خاتون کی شادی میں والد کی مرضی ضروری ہے مگر سعودی عرب میں وہابی تعلیمات اور قبائلی روایات مردوں کو بیٹیوں اور بہنوں کے مقدرات کا فیصلہ کرنے کا انحصاری حق دیا جاتا ہے اور ان کے مقدرات پر قبضہ برقرار رکھنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
عجیب یہ ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق سمیت عورتوں کے حقوق کی پامالی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن سعودی حکومت کو اب تک انسانی حقوق کی وسیع پامالی کے حوالے سے کسی قسم کے بین الاقوامی رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور مغرب میں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی جانب سے اس ملک میں عام انسانوں، مذہبی و دینی اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پامالی کے عوض کوئی بھی احتجاج و اعتراض ریکارڈ نہیں کرایا جاتا بلکہ حال ہی میں امریکہ نے سعودی حکمرانوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کی بنا پر سعودی عرب کو 60 ارب ڈالر کے ہتہیار فروخت کئے جارہے ہیں [گو کہ دوسری طرف سے یہ بھی اطلاع ہے کہ معاشی بدحالی اور بیروزگاری کا شکار امریکہ ایک طرف سے بینکوں کو بند کررہا ہے اور ہزاروں افراد کو بیروزگار کررہا ہے مگر اب سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کے نتیجے میں امریکہ میں 30000 ہزار افراد کو روزگار کے مواقع فراہم ہوئے ہیں]۔
یہ وہابی قوانین ایسے حال میں سعودی عرب میں جاری اور نافذ ہیں کہ اہل بیت نبی (ص) کے توسط سے تشریح یافتہ حقیقی اسلام کے مطابق زوجہ کی مرضی کے بغیر جبری نکاح مکمل طور پر باطل ہے؛ نیز بلوغ عقلی پر فائز خواتین سمیت لڑکپن سے گذر کر بڑی عمر میں قدم رکھنے والی خواتین اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرسکتی ہیں اور دوسروں کی مداخلت کے بغیر اپنے لئے شوہر کا انتخاب کرسکتی ہیں۔
تمام مراجع معظم کے فتوی کے مطابق اگر والدین اپنے بچوں (لڑکوں یا لڑکیوں) کو منظور نظر شخص کے سوا دوسرے شخص کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کریں تو عقد و نکاح باطل ہے۔