مشرق وسطی

مصرمیں ایران اور شیعوں کے بارے میں الازھر کے ایک مفتی کا فالتو بولنا

misar muftiیران اور شیعوں کے بارے میں الازہر کے ایک مفتی’’ احمد الطیب‘‘ نے فالتو میں زبان کھولی، اور وہابیوں کی سازشوں کی نسبت تجاہل عارفانہ دکھایا۔
الازہر کے شیوخ یہ نہ بھولیں کہ یہ شیعہ نہیں ہیں جو صحابہ اور اسلام کے بزرگوں کی توہین کرتے ہیں بلکہ یہ اسلامی دشمن وہابی ہیں جو اہلبیت اطہار(ع) کے روضوں کو گرا کر، صحابہ اور تابعین کی قبروں کو نابود کر کے اور مسلمانون کے درمیان قتل و غارت اور کفر کے فتوے لگا کر دنیائے اسلام میں فتنے و فساد پھیلاتے ہیں۔
ایک طرف الازھر جیسی عالمی اسلامی یونیورسٹی کے شیوخ اور مفتیوں سے پوری امت اسلامیہ یہ انتظار رکھتی ہے کہ وہ اپنے سلف صالح کی طرح اتحاد بین المسلمین کے پرچمدار رہیں، لیکن افسوس سے الازھر کی موجودہ صورت حال کچھ اس کے برخلاف نظر آتی ہے اور مذہبی اور قومی تعصب کی بو اب اس عظیم اسلامی دانشگاہ سے بھی آنے لگی ہے۔
منگل ۵ فروری ۲۰۱۳ کو جب ایران کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر احمدی نژاد اپنے دورہ مصرکے پہلے روز ہی الازھر میں پہنچے اور الازھر کے شیخ اور مصر کے ایک مفتی سے ملاقات اور گفتگو کی تو انہوں نے ان محبتوں کے جواب میں پھول کے بجائے کانٹے پیش کئے۔
شیخ الازھر کے دفتر کے نمائیندہ اور اس یونیورسٹی کے اسپیکر نے الازھر میں منعقدہ اس کانفرنس میں بجائے آپسی اتحاد کو فروغ دینے کے، شیعہ و سنی کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ انہوں نے ایران پر یہ الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ایران مصر اور دیگر سنی ممالک میں شیعت کی تبلیغ کرتا ہے اور ہم اس چیز کو ایران اور مصر کے درمیان روابط کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے حتی ان مصریوں پر بھی انتقاد کیا جو آزادی سے ایران آتے جاتے رہتے ہیں۔
شیخ حسن الشافعی نے رہبر معظم انقلاب اور دیگر مراجع کے ان فتاویٰ کی نسبت تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے جو انہوں نے ہر مذہب کی مقدس شخصیت کی توہین کو حرام قرار دے رکھا ہے کہا: ’’مصر اہلسنت و الجماعت کا ایک قلعہ ہے اور الازھر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ شیعہ رسول اسلام(ص) کے اصحاب کی توہین کریں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ایران میں اہلسنت پر ایرن کی طرف سے امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔
ان کی ان باتوں کے مقابلہ میں احمدی نژاد نے کہا کہ ایسی باتیں کرنا صحیح نہیں ہیں انہوں نے نیز خبردار کیا کہ اگر ایسی باتیں جاری رکھیں گے تو وہ کانفرس کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ کانفرس میں موجود الازھر کے ایک عالم دین کو بھی شیخ صاحب کی یہ باتیں بری لگیں اور انہوں نے ان کے کان میں کہا: یہ باتیں مت کرو۔
لیکن الازھر کے نمائندہ نے اپنی باتوں کو جاری رکھا اور دعوی کیا کہ انہوں نے احمدی نژاد کے ساتھ ایران میں موجود اہلسنت کے حقوق کے بارے میں بات چیت کرنے پر پہلے سے توافق کیا ہے۔ احمدی نژاد نے فورا ٹوکا کہ ہم نے صرف اتحاد اور برادری کے بارے میں بات کرنے پر توافق کیا ہے۔
صدر جمہوریہ کے خبردار کرنے پر الشافعی نے موضوع کر بدل دیا اور وحدت اور برادری کے متعلق گفتگو کرنا شروع کیا اور فلسطین کے بارے میں ایران کے موقف کو سراہا اور کہا کہ ہم تمام خارجی یلغاروں کے مقابلہ میں ایران کی حمایت کرتے ہیں۔
شیوخ الازھر کی عجیب و غریب باتوں کے ذیل میں چند نکتے قابل توجہ ہیں:
اولا: یہ تفرقہ انگیز باتیں اس وقت الازھر سے سامنے آئیں جب ایران کے صدراحمدی نژاد اسلامی وحدت کا علم لہراتے ہوئے یہ تاکید کر رہے تھے کہ ہم صرف اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں بات کرنے آئے ہیں۔ اور ایرانی عوام گزشتہ ۳۳ سال سے وحدت اسلامی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ لیکن کسی دوسرے اسلامی ملک کے کانوں میں جوں تک بھی نہیں رینگتی ہے جبکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ شیعہ سنی اختلاف کی کس قدر غرامت مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے اور اسی اختلاف کی وجہ سے آج تک مسلمان استعماری طاقتوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
ثانیا: ایران کے شیعہ نہ صرف صحابہ کرام کی شان میں گستاخی نہیں کرتے بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کے صالح اصحاب کے مزار اور اہلبیت رسول (ص) کے روضوں کا احترام کرتے اور ان کی زیارت کرتے ہیں جبکہ دیگر مسلمان حتی روضہ رسول(ص) کا احترام بھی نہیں کرتے، رسول کی لخت جگر جن کی خشنودی رسول کی خشنودی اور جن کا غضب رسول کا غضب ہے، فاطمہ زہرا (س) کا روضہ مسمار کر دیتےہیں لیکن الازھر کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور کوئی بھی ان کے اس اقدام کی مذمت نہیں کرتا۔ الازھر کو یہ معلوم ہے کہ یہ شیعہ نہیں ہیں جو صحابہ رسول کی توہین کرتے ہیں بلکہ وہ افراطی وہابی اور سلفی ہیں جو اہل بیت رسول (ص) کے روضوں کو گرانے، صحابہ کے قبروں کی بے حرمتی کرنے اور ان پر فاتحہ نہ پڑھنے اور دنیا میں قتل و غارت کرنے کے فتوے دیتے ہیں جو پورے جہان اسلام میں فتنہ و فساد کے باعث بنے ہوئے ہیں۔ کیا الازھرکے شیوخ بھول گیے ہیں کہ مصر میں بھی موجودہ مذہبی مقامات جن کا خود مصری احترام کرتے اور ان کی زیارت کرتے ہیں ’’مقام راس الحسین (ع)‘‘ اور’’ جناب زینب (س) سے منسوب مرقد‘‘ کے مسمار کرنے کا فتوی کیا انہوں نے نہیں دیا تھا؟
ثالثا: کیوں الازھرکے شیوخ خود کو تجاہل عارفانہ میں ڈال کر ایران کے اہلسنت کے ساتھ امتیازانہ سلوک کرنے پر متہم کرتے ہیں جبکہ دوسری جگہوں؛ عربستان، لبنان، بحرین، عراق، یمن اور پاکستان میں شیعوں کی نسبت اہلسنت کی طرف سے ظلم و ستم اظھر من الشمس ہے؟
رابعا: ایران میں موجود اہلسنت و الجماعت کے ساتھ کون سا ایسا امتیازی سلوک ہوا ہے جس کی وجہ سے الازھر کے شیوخ نے صدر جمہوریہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے؟ کیا ایران کے اہلسنت شیعوں کے برابر حقوق سے مستفید نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس مساجد اور دینی مدارس نہیں ہیں؟ کیا وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی پروگرام نہیں کرتے ہیں؟ کیا کبھی ایرانی حکومت نے انہیں کسی مذہبی و سماجی رسم و رواج سے منع کیا ہے؟ کیا وہ ایران کی پالیمنٹ میں نمائندہ نہیں رکھتے؟ کیا ایرانی فوج اور دیگر بڑی بڑی پوسٹوں پر ان کے افراد نہیں ہیں؟ ۔۔۔۔
اور اس کے مقابلہ میں مصر کے شیعوں کو دیکھئے ان کو کون سے حقوق دئے جا رہے ہیں؟ کیا انہیں دو سال سے قاہرہ میں عاشور کے دن جلوس نکالنے سے منع نہیں کیا گیا؟ کیا انہیں مجالس برپا کرنے سے منع نہیں کیا جاتا؟۔۔۔
آخری بات یہ کہ
ایران اور مصر کے درمیان اختلاف ڈالنے کی سازش عالمی استکبار اور دشمنِ اسلام وہابیوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔ ایسے میں الازھر کے بزرگان کو یہ خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ اپنے سلف صالح شیخ محمود شلتوت اور شیخ سلیم بشری کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اسلامی اتحاد کے راستے کو اپنائیں یا بھر امریکہ ، صہیونسٹ اور سلفیوں کے پٹھو بن کر دنیائے اسلام میں بھڑکتی ہوئی آگ پر مزید پٹرول چھڑکیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button