مشرق وسطی

وہابی علماء اور مفتی سعودی حکام کے خلاف کسی قسم کا احتجاج حرام،

muftiدنیا جانتی ہے کہ وہابی علماء اور مفتی سعودی حکام کے خلاف کسی قسم کا احتجاج حرام، فتنہ، بلوا اور خلاف شریعت سمجھتے ہیں ایک سعودی مفتی عائض القرنی نے مصر کے موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے اخوان المسلمین پر شدید حملوں کے ضمن میں کہا ہے کہ ملکوں میں جمہوری تبدیلی لانا اقوام کا حق ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی مفتی "شیخ عائض القرنی” نے مصری انقلاب کے بارے میں کہا ہے کہ یہ انقلاب ایک سیاسی جماعت (اخوان المسلمین) نے نہیں بلکہ مصری قوم نے برپا کیا ہے چنانچہ تمام ذمہ دار افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات حل کرنے کے لئے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مصر ایک سیاسی جماعت کا نہيں بلکہ تمام مصریوں کا وطن ہے۔
القرنی کے کنایہ آمیز خیالات ایسے حال میں سامنے آئے ہیں کہ آل سعود کے حکام اور سرکاری مفتی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمین کی کامیابیوں سے بری طرح ناراض اور پریشان ہیں۔
عائض القرنی نے "الحیاۃالیوم” کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: بعض علماء نے مصر میں "اخوان المسلمین کے حق میں تبلیغ کرکے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے”۔
عائض القرنی نے آل سعود کو برسر اقتدار رکھنے کے لئے وہابی مفتیوں کے ہاتھوں دین و قرآن سے وسیع اور ناجائزہ فائدہ اٹھانے کی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے الزآم لگایا کہ مصر میں اخوان المسلمیں دین اور قرآن سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے دین کو اوزار کے طور پر استعمال کررہی ہے حالانکہ دین کو سیاسی اوزار کے طور پر بروئے کار نہیں لانا چاہئے بلکہ برادری اور اخوات کے ساتھ سیاست کے سیاست کے میدان میں اترنا چاہئے۔
شیخ عائض القرنی نے آل الشیخ کے تازہ ترین حکم کے برعکس [جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پیش اماموں کو سیاسی گفتگو سے پرہيز کرنا چاہئے] زور دے کر کہا کہ دین سیاست کے ساتھ ساتھ ہے اور قرآن انسان کو سیاسی حکمت عملیاں دیتا ہے ۔۔۔ چنانچہ سیاسی اسلام کے حامل افراد کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کردیں اور انہیں اپنے آپ سے متنفر نہ کریں۔
القرنی نے کہا: اخوان المسلمین ایک سیاسی گروپ کی حیثیت سے غلطیوں سے محفوظ نہيں ہے اور وہ غلطیاں کرسکتی ہے۔۔۔ اخوان المسلمین ایک نیا حکومتی نظام ہے جو عوامی ووٹ سے برسراقتدار آیا ہے چنانچہ اس کو کام کے لئے وقت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد اس کے مثبت یا منفی کارکردگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہئے۔
عائض القرنی نے اپنے ملک کے غیرمنتخب بادشاہی نظام کے لئے جواز کا پہلو نکالتے ہوئے کہا: مصر کے عوام نے اپنے صدر کو منتخب کیا ہے لیکن "انھوں نے صدر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے” چنانچہ اگر وہ غلطی کریں تو ایسی صورت میں عوام کو انہیں بدلنے کا پورا پورا حق حاصل ہوگا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں بادشاہ ولیعہد کا تعین کرتا ہے اور آل سعود کے بڑے بڑے اس کے ساتھ بیعت کرتے ہیں اور جب بادشاہ فوت ہوجاتا ہے تو ولیعہد بادشاہ بن جاتا ہے اور پھر مختلف قبائل اور اقوام اور مذاہب کے نمائندے آکر "بادشاہ کے ساتھ بیعت” کرتے ہیں جس کا مقصد انتخاب نہیں ہے بلکہ وفاداری کا اعلان ہے اور عائض القرنی نے شاید اسی بیعت کو اس بات کی بنیاد قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ جمہوری حکام کے خلاف عوامی تحریک درست ہے لیکن سعودی بادشاہ کے خلاف ایساکرنا جائز نہیں ہے لیکن آج کل کی "بہت زیادہ پوچھتی اور ہر بات کی تہہ تک پہنچی جوان نسل کو دھوکا دینا کچھ زيادہ آسان نہيں ہے اور بادشاہی نظام کو "نمائشی بیعت” کے ذریعے منتخب نظام کے طور پر متعارف کرنا بھی بہت زیادہ مشکل ہے” اور سعودی عوام سمیت پوری دنیا قومیں جانتی ہیں کہ جمہوریت "بادشاہی خاندان کے اندرونی گٹھ جوڑ اور بیعت” کا نہيں بلکہ اقوام کی آزادانہ رائے کے نتیجے میں معرض وجود میں آتی ہے۔
انھوں نے شاید پھر بھی مصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری تبدیلی اقوام کا حق ہے اور حکمران نظام کو عوامی تنقید اور جمہوریت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں حکام اور حکومت پر تنقید ناقابل معافی جرم سمجھی جاتی ہے اور یہ ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تیس ہزار سیاسی قیدی بغیر مقدمے کے، طویل عرصے سے حبس بےجا میں پابند سلاسل ہیں اور عائض القرنی کے علم افشانیوں کا مقصد بھی بظاہر اخوان المسلمین کو مورد تنقید ٹہرانےکے سوا کچھ نہيں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button