مشرق وسطی

بحرینی اقتدار اعلی پر آل سعود کا قبضہ ہو چکا ہے؛ پارلیمان میں آل سعود کا جھنڈا

shiitenews_bahrain_under_alysaudبحرین میں اقتدار اور تمام قومی معاملات کے فیصلے عملی طور پر آل سعود کے ہاتھ میں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے خلیج فارس و مشرق وسطی کے امور کے ڈائریکٹر جنرل حسین امیر عبداللہیان نے کہا: بحرین کی ایک فوجی عدالت کی طرف سے 4 نابالغ نوجوانوں کو وکیل رکھنے کا حق دیئے بغیر سزائے موت سنانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرین میں آج اقتدار اعلی پر آل سعود کا قبضہ ہے اور آل سعود کے فوجی گماشتے اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔
انھوں نے ان نوجوانوں کو موت کی سزا سنائے جانے پر یورپی یونین کے احتجاج بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوجوان خطے کے ان تمام نوجوانوں کی مانند ہیں جنہوں نے آمریت و استبداد کے خلاف قیام کیا اور احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے اور ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کیا اور جمہوری و مہذب انداز سے اپنے مطالبات پیش کئے چنانچہ ان پر ایک خاص قسم کی فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا اور انہیں وکیل رکھنے کے حق سے محروم کرنا حتی کہ بحرین کے موجودہ قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے بحرینی فوجی عدالت کے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ آل خلیفہ و آل سعود کے اس اقدام سے موجودہ حالات مزید پیچیدہ ہونگے اور یہ اقدام کسی بھی مسئلے کے حل میں ممد و معاون ثابت نہ ہوسکے گا۔
انھوں نے دنیا کی سطح پر انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی طرف سے آل خلیفہ و آل سعود کے اس اقدام کی مذمت کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا: افسوس کا مقام ہے کہ بحرین میں ہم عوام کی سرکوبی، گرفتاریوں، تشدد اور قتل عام کی مختلف روشوں کے جاری رہنے کا مشاہدہ کررہے ہیں جو آل خلیفہ کی نام نہاد اصلاحات کی عین خلاف ورزی ہے اور ثابت ہے کہ یہ سارے اقدامات خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کی فورسز کی مدد سے انجام پا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ آج پوری دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور خلیج فارس کی ریاستیں بحرین میں عوام کا قتل عام کررہی ہیں۔
بحرین میں تمام امور کا کنٹرول آل سعود کے فوجیوں کے ہاتھ میں ہے
عبداللہیان نے کہا کہ آل سعود نے بحرین میں نہتے عوام کو کچلنے کے لئے مزید فوجی دستے بھی روانہ کردیئے ہیں۔
انھوں نے کہا: عرب دنیا کے قانوندانوں کی رائے یہ ہے کہ جزیرہ نما شیلڈ نامی فورس کی تشکیل کا مقصد بیرونی چلینجوں کا مقابلہ کرنا ہے نہ کہ یہ فورس رکن ریاستوں کے عوام کا قتل عام کرنا شروع کردے۔
امیرعبدااللہیان نے کہا: جزیرہ نما شیلڈ کے عنوان سے رکن ریاستوں کے درمیان منعقدہ سیکورٹی معاہدے کے تحت اگر کسی ریاست کو اس فورس کی ضرورت پڑی اور وہ اس فورس کی مداخلت کی درخواست کرے تو کمانڈ درخواست دینے والے ملک کے ہاتھ میں ہوگا لیکن بحرین میں بیرونی خطرے کے بغیر غیر قانونی طور پر مداخلت کرنے والی خلیجی فورسز کی کمانڈ آل سعود کے جارح فوجیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی نہیں بلکہ آج بحرین کے تمام معاملات آل سعود کے فوجیوں کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اندرونی مسائل و معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔
ذلت کی انتہا دیکھئے؛ لگتا ہے کہ سعودی عرب نے بحرین کو اپنی عملداری میں شامل کرلیا ہے:
قانون کے مطابق 40 رکنی بحرینی پارلیمان کے 24 اراکین کے استعفے کی بعد بحرینی پارلیمان کی عملی اور قانونی طور پر تحلیل ہونے کے باوجود آل خلیفہ کی سعودی ایجنٹوں نے باقیماندہ 16 اراکین سے فائدہ لیتے ہوئے پارلیمان کو بحال رکھا ہوا ہے جس نے بحرین میں ہنگامی حالت کی مدت تین مہینوں تک بڑھادی ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ ایک غیر قانونی اور تحلیل شدہ ادارے کا ہر اقدام غیر قانونی ہوتا ہے۔ ذلت کی انتہا بھی تو دیکھئے کہ اس وقت باقیماندہ اراکین پارلیمان کی میزوں پر آل سعود کا پرچم دکھائی دے رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا بحرین کو سعودی عرب میں ضم کیا گیا ہے!۔
ڈائریکٹر جنرل خلیج فارس و مشرق وسطی نے کہا: اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گذشتہ ہفتے بحرین کی تحلیل شدہ اور غیر قانونی پارلیمان نے ایک اوپن سیشن منعقد کیا جس میں ان کی میزوں پر سعودی پرچم نظر آئے اور آل خلیفہ کی غیر قانونی پارلیمان کے غیر قانونی اراکین کے سروں پر بھی عربی رومال کی جگہ سعودی پرچم بندھا ہوا نظر آیا اور اس ذلت کا مظاہرہ انھوں نے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے کیا۔
بحرین میں انتہاپسندانہ اقدامات جاری رہے تو علاقے میں انتہاپسندی کو فروغ ملے گا
انھوں نے کہا کہ بحرین میں آل سعود کا کوئی بھی اقدام جزیرہ نما شیلڈ معاہدے کے دائرے میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بحرین سے ملنے والی اطلاعات اور مغربی اور حتی عرب غیر سرکاری اداروں کی رپورٹوں کے مطابق آل سعود اور آل خلیفہ کی سرکاری فورسز عام شہریوں کے بھیس میں لوگوں کو اغوا کرتے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں اور یہ تمام اقدامات کسی بھی قانون یا آئین و مذہب سے مطابقت نہیں رکھتے اور اگر اس قسم کے انتہاپسندانہ اقدامات جاری رہے تو اندیشہ ہے کہ بحرین سمیت علاقے کے دیگر ممالک میں بھی انتہاپسندی کی حوصلہ اافزائی کا سبب بنیں جبکہ یہ صورت حال علاقے میں امن  امان اور صلح و سلامتی کی بحالی کی کسی بھی اسٹریٹجی سے متصادم ہوگی۔
بحرین میں انتہاپسندی جزیرہ نما شیلڈ کی آڑ میں
انھوں نے کہا کہ بحرین میں اساتذہ، ڈاکٹروں، دانشوروں نیز اراکین پارلیمان کی گرفتاریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں تمام جمہوری اداروں کو بآسانی یورشوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ان پر حملہ کیا جاسکتا ہے اور ان کی سرگرمیوں کو روکا جاسکتا ہے اور حتی اس ملک میں نامور شخصیات، سیاستدانوں اور اراکین پارلیمان کو کوئی استثنی اور کوئی استحقاق حاصل نہیں ہے اور آل خلیفہ اور آل سعود کے یہ اعمال انتہاپسندانہ اقدامات کا دوسرا اہم ثبوت ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحرین میں انتہاپسندی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہورہی ہے اور یہ اقدامات جزیرہ نما شیلڈ کے جعلی بہانے کے تحت شروع ہوئے ہیں۔
امریکہ نے آل خلیفہ اور آل خلیفہ کی درمیان فرائض تقسیم کئے
حسین امیر عبداللہیان نے بحرین کی صورت حال کی روشنی میں علاقے میں امریکیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا 2004 میں امریکہ اور بحرین کے درمیان منعقدہ سیکورٹی معاہدے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس معاہدے کے تحت امریکیوں نے ضمانت فراہم کی ہے کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں بحرین کی سلامتی کو یقینی بنائے اور اس وقت بحرین پر آل سعود کی سرکردگی میں خلیجی ریاستوں نے حملہ کیا ہے اور بحرین پر ان کا قبضہ ہے اور اب تو بحرین کی پارلیمان میں بھی سعودی جھنڈا دکھائی دے رہا ہے لیکن امریکہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تماشا دیکہ رہا ہے اور اپنے عمل میں تضادات سے دوچار ہو۔
گیا ہے۔ آج ہم بحرین میں جس قتل عام اور انسانی حقوق کی شدید ترین انداز میں پامالی کا مشاہدہ کررہے ہیں یہ سب امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور شاید یہ کہنا بےجا نہ ہو کہ امریکہ نے پرامن انداز سے جمہوری مطالبات کے لئے قیام کرنے والے بحرینی عوام کی سرکوبی کی ذمہ داری "جزیرہ نما شیلڈ” کی آڑ میں آل سعود اور آل خلیفہ کو سونپ رکھی ہے۔
سب سے اہم بات
دنیا میں جہاں بھی امریکیوں کے مقاصد اور مفادات ہوں انہیں حاصل کرنے کے لئے وہ فوری طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق کا رونا رونے لگتا ہے یا پھر اسامہ بن لادن جیسوں کو آگے ڈال کر عالمی ٹھیکیدار کی حیثیت سے جمہوریت کے قیام، انسانی حقوق کی پامالی اور دہشت گردی روکنے کے بہانے جیلوں میں آزار و اذیت اور ٹارچر روکنے کے نعرے لگا کر واشنگٹن کے گھر کی لونڈی یعنی اقوام متحدہ کی فوری منظوری لے کر اس ملک پر چڑھ دوڑتا ہے اور  اور بحرین میں اس وقت:
1۔ جمہوریت کا حال یہ ہے کہ آل خلیفہ نامی ایک خاندان اس ملک کے تمام مقدرات پر قابض ہے
2۔ انسانی حقوق، بچوں کے حقوق، خواتین کے حقوق کا حال یہ ہے کہ انسانیت خون کی آنسو رورہی ہے، عورتیں قتل ہورہی ہیں اور جیلوں میں بند کی جارہی ہیں اور بچے قتل ہورہے ہیں اور ان پر پھانسیوں کی سزائیں مسلط کی جارہی ہیں۔
3۔ بحرین میں حکومت سے وابستہ کرائے کے دہشت گرد ـ جو پاکستان، یمن، اردن اور شام سے لائے گئے ہیں ـ عام لوگوں کے بھیس میں لوگوں کے گھروں پر حملے کرتے ہیں، انہیں اغوا کرتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں اور ان کی بوری بند لاشیں ان کے گھروں کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔
4۔ جیلوں میں تشدد کا حال یہ ہے کہ اب تک پانچ نامور افراد تشدد کے نتیجے میں شہید ہوگئے ہیں۔
یہ سب ہونے کے باوجود امریکی میڈیا خاموش، امریکی انسان دوستی خاموش، امریکی جمہوریت پسندی خاموش، انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں لیکن ایک بلی یا کتے کی ہلاکت کے لئے جلوس نکالنے والی امریکی اور مغربی تنظیمیں خاموش ہیں۔ اور تو اور امریکہ کے گھر کی لونڈی یعنی وہی اقوام متحدہ تین ماہ گذرنے کے باوجود ایک اجلاس بھی منعقد کرنے سے عاجز ہے۔
امیرعبداللہیان نے کہا: سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ جمہوریت اور انسانی حقوق نعرے تو لگاتا ہے لیکن بحرین میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی اعلانیہ پامالی پر امریکی میڈیا بالکل خاموش ہے اور بحرین میں جرائم پر امریکہ کے تمام متعلقہ شعبوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
انھوں نے آخر میں بحرین میں آل سعود کی ریشہ دوانیوں اور آل خلیفہ کی مکمل بے اختیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا: آپ بتائیں بحرین میں ایسی کونسی چیز باقی رہ گئی ہے جو اس ملک کی خودمختاری کا ثبوت فراہم کرسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button