مشرق وسطی

جمعہ 25 فروری 2011 / بحرین لمحہ بلمحہ / انقلاب کا بارہواں دن

bahrain_revبحرین کے مظلوم عوام نے آل خلیفہ کے خلاف اپنے احتجاج کا بارہواں روز ایسے حال میں شروع کیا ہے کہ آج بحرین میں اس ملک کی کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
جمعہ 25 فروری کے واقعات:
ساعت 00:05 بجے ـ ـ میدان اللؤلؤة میں عوام کے درمیان مباحثے
میدان اللؤلؤة میں احتجاج کرنے والے بحرینی عوام کا پر امن احتجاجی دھرنا جاری ہے۔بحرینی دانشور "عبداللہ خمیس” کے مطابق ہزاروں افراد اس وقت میدان اللؤلؤة میں موجود ہیں۔
دیگرذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس وقت جس موضوع پر گرم مباحثے ہورہے ہیں وہ یہ ہے کہ "کیا حکومت کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں یا مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے؟ میدان میں موجود لوگوں کی غالب اکثریت مذاکرات کو مسترد کرتے ہیں اور وہ خلیفہ خاندانی کی حکمرانی کا قطعی خاتمہ چاہتے ہیں۔
  مظاہرے کے دو روٹس
میدان میں موجود لوگوں کے علاوہ بحرین کی اکثریت نے آج کے مظاہرے میں حصہ لے رہی ہے۔ وہ نماز جمعہ کے بعد میدان اللؤلؤة کی جانب جلوس نکالیں گے اور مظاہرہ کریں گے اور میدان میں دھرنے والوں سے جاملیں گے۔
بحرین کے بزرگ علماء «آیت‏اللہ شیخ عیسی قاسم»، «آیت‏اللہ سید عبداللہ الغریفی»، «سید جواد الوداعی»، «شیخ محمد سند»، «شیخ عبدالحسین الستری» و «شیخ محمد صالح الربیعی»، پر مشتمل مجمع نے ایک بیان جاری کرکے جمعہ کو "قومی سوگ” کا دن قرار دیا ہے اور لوگوں کو دعوت دی ہے کہ یوم سوگ پر عظیم اور تاریخی ریلی اور مظاہرے میں شرکت کریں۔
ساعت 00:30 بجے ـ ـ برسلز میں بھی دھرنا
یورپ: برسلز میں مقیم بحرین اور دیگر عرب ممالک کے باشندوں نے یورپی یونین کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر بحرین کے واقعات کے سلسلے میں امریکہ اور یورپی ممالک کی مجرمانہ خاموشی پر احتجاج کیا ہے۔
 ساعت 1:00بجے ـ ـ احتجاج حقیقی آزادی تک
بحرینی پارلیمان کے مستعفی رکن اور الوفاق الاسلامی جماعت کے راہنما «جاسم حسین» نے بحرین میں عوامی اور سیاسی احتجاج جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا: یہ احتجاج ملک میں تبدیلی اور مشرق وسطی میں مسامحت اور تحمل و بردباری سمیت جمہوریت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
انھوں نے کہا: بحرین میں عوامی اور سیاسی احتجاج منتخب حکومت کے قیام، آزادانہ اور حقیقی انتخابات کے نتیجے میں نئی پارلیمان کا قیام، امتیازی رویوں کے مکمل خاتمے اور ملکی دولت کی منصفانہ تقسیم جیسے مطالبات کے حصول تک جاری رہے گا، کیونکہ یہ سارے قانونی مطالبات ہیں۔
انھوں نے 308 سیاسی قیدیوں کی رہائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مثبت اقدامات کا انتظار کررہے ہیں۔
 ساعت 1:30بجے ـ ـ خلیفی حکومت دنیا تک احتجاج کی اطلاعات پہنچنے سے ہراساں
آل خلیفہ کی حکومت کے وزیر داخلہ نے بحرینی عوام کے احتجاج کی خبریں اور تصویریں بیرون ملک پہنچنے کے خوف سے میدان اللؤلؤة کے آس پاس اونچی عمارتوں کے اوپر سے مظاہروں اور دھرنوں کی تصویریں اور ویڈیو بنانے پر پابندی لگائی ہے۔
اس نئی ظالمانہ پالیسی کے تحت ان عمارتوں کے مینجروں نے عمارتوں کے لفٹوں اور کارپارکنگ کے مقام پر نوٹس لگا کر وزارت داخلہ کے اس حکمنامے سے ساکنین کو آگاہ کرنا شروع کردیا ہے
نوٹس میں لکھا گیا ہے:
تمام مالکین اور کرایہ دارتوجہ کریں کہ:
* اپنے فلیٹوں کے دروازے اور کھڑکیاں شب و روز بند رکھیں کھڑکیوں سے ہر قسم کی ویڈیو یا تصویر بنانے سے اجتناب کریں۔
* ہمیں وزارت داخلہ سے حکم ملا ہے جس کے مطابق فلم یا تصویر بنانا منع ہے اور ممنوعیت کا یہ حکم آپ کی سلامتی کے تحفظ کے لئے جاری کیا گیا ہے!.
آپ کے تعاون کا شکریہ ـ منیجمنٹ
اسی اثناء میں وزارت داخلہ کے اہلکاروں نے میدان اللؤلؤة کے قریب ایک شہری کے گھر میں داخل ہوکر ان کے کیمرے اور کمپیوٹر کی تلاشی لی ہے۔
واضح رہے کہ کئی بلند عمارتیں ـ بحرینی عوام کے دھرنے کے مرکز ـ میدان اللؤلؤة ـ کے آس پاس واقع ہیں اور انقلابی نوجوان اپنے دھرنوں، مظاہروں اور ریلیوں کا ریکارڈ محفوظ کرنے کے لئے ان عمارتوں سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
 ساعت 2:00بجے ـ ـ اس حکومت کے ساتھ بات چیت ناممکن
بحرین کی انسانی حقوق کمیٹی کے رکن «سید یوسف عبد الجلیل» نے کہا: اس وقت وہی لوگ ہمیں مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں جنہوں نے لوگوں کا خون بہایا. ہم ایسی حکومت کے ساتھ بات چیت کیونکر کرسکتے ہیں جس کی فوج نے عوام کو گولیوں کا نشانہ بنایا؟۔
انھوں نے حمد بن عیسی آل خلیفہ کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں کہا: بحرینی عوام کو اس دورے سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا؛ آپ نے خود دیکھا کہ سعودی عرب کی فوج بھی بحرینی فورسز کی مدد کے لئے آئی؛ چنانچہ سعودی عرب حکومت کا ساتھ دے رہا ہے اور اس دورے سے ہمارے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔
 ساعت 2:30بجے ـ ـ انقلاب نوجوانوں کے ہاتھ میں
بحرین کے ایک سیاسی راہنما نے کہا: اس وقت سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیوں کی بات حرف آخر نہیں ہے بلکہ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں آخری بات ان نوجوانوں کی بات ہے جو کئی روز سے دارالحکومت کے میدان اللؤلؤة میں دھرنا دینے کے لئے بیٹھے ہیں۔
انھوں نے زور دے کر کہا: اس وقت صورت حال یہ ہے کہ انقلابی نوجوان انقلاب جاری رکھنے، مذاکرات کرنے یا مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات اور جماعتوں کی بات حرف آخر نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button